صفحہ 3 - خواہش
بہت عرصہ پہلے ایک مشہور مسلمان سپہ سالارکو ایک مشکل فیصلہ کرنا پڑا جو اس کو جنگ میں کامیاب کردےگا۔ وہ اپنی فوجوں کوایک ایسے دشمن سے لڑنے کے لیے لے جا رہا تھا جس کی فوجیں تعداد میں اس کی فوجوں سے کئ گنا بڑی تھیں۔ اُس نے اپنے سپاہیوں کوکشتیوں میں سوار کیا اورکشتیوں کو اسلحہ سے لاد دیا۔ جب وہ دشمن کے ملک پہنچا تواس نے کشتیاں جلانے کا حکم دے دیا جو ان سپاہیوں کووہاں لائ تھیں۔اُس نے اپنے بہادروں سے کہا۔ ” تم اُن کشتیوں کو جلتا دیکھتے ہو اس کا مطلب یہ ہے کہ اس جنگ کو جیتے بغیر ہم زندہ واپس نہیں جا سکتے۔ جیتو یا مرجاؤ“ ـ سپہ سالارطارق بن زیاد کواسپین فتح کرنے میں کامیابی ہوئ۔ ماں نے کہا”سعدیہ بیٹی کامیابی کی کنجی کیا ہے؟“
سعدیہ جلدی سے بولی”۔ میں نے ابھی تو ابو کے سوال کا جواب دیا تھا۔ اب تو بھیا کی باری ہے“۔
” سعدیہ کو اس سوال کا جواب نہیں پتہ“۔میں نے قہقہہ لگایا۔
” سوچ، مقرر، شدت“۔ سعدیہ نے اپنے کانوں کو پکڑ کر مجھے اپنی لمبی زبان دکھائ۔
جوکھوں اور عزیمت کے ارادوں میں وہی لوگ کامیاب ہوتے ہیں جو اپنی کشتی کوجلادیتے ہیں۔اس کشتی کو جلانے کے عمل سے دماغ کو روحانی کیفیت ملتی ہے یہ کیفیت جیتنے کی چاہت پیدا کرتی ہے جوکہ کامیابی کے لیے بہت ضروری ہے۔
” جیتنے والا منزلِ مراد ، عزمِ عالی شان اور مکمل چاہتِ علم کی خصوصیات کا مالک ہوتا ہے“۔