صفحہ 3 - پینو

” سکینہ بی بی نے کہا ہے میں آپ کے سب سوالوں کا جواب دوں مگر میں آپ کو خااندان اور اس کے لوگوں کے نام نہں دے سکتی“۔

” اچھا، مگرتم مجھ کو اپنی داستان اس طرح بتاؤ جیسے کہ یہ سب ابھی ہو رہا ہے کیا تم یہ کرسکتی ہو؟”“ ہاں“ ۔میں اور گل ایک ہی کمرے میں سوتے ہیں۔ گل اور میں میری چار پائ پر بیٹھے ہیں۔ دروازہ کھلتا ہے”۔

میں نے اس کی آواز میں کپکپی محسوس کی۔

”ایک چھوٹے خان جو اس حویلی میں مہمان تھے اوردوسری تحصیل سے اپنے چچا کے گھر رہنے آۓ ہیں۔ وہ کمرے میں داخل ہوتا ہے۔اور گل کی چار پائ پر بیٹھ جاتاہے اور کہتا ہے کہ تم دونوں میرے پیر دباؤ۔میں اور گل اپنے ابا کے پیر گھٹنوں سے نیچے دباتے تھے اسی طرح سے اس کے بھی پیر دابتے ہیں۔ چھوٹا خان غصہ ہو کر کہتا ہے۔ اوپر بھی دباؤ۔ وہ میرے سے کہتا ہے تم ا چھا نہیں دباتی تم جاؤ اُدھر بیٹھو۔ میں اپنی چار پائ پر آ کر بیٹھ جاتی ہوں۔ چھوٹاخان بستر سے اتر کر کھڑا ہو جاتا ہے“ ۔ پینو اب ہچکیاں لیکر رورہی تھی۔

”اور گل کو اٹھا کرپیٹ کے بل بستر پر ڈال کر اس کے ساتھ زیادتی کرتا ہے۔گل اس کو روکنے کی کوشش کرتی ہے وہ اس کو بے تحاشہ تھپڑ مارتا ہے۔گل چیخیں مارتی ہے۔اور پھررونا بند کردیتی ہے“۔

پینو ڈھاڑیں مار کر رورہی تھی۔ سکینہ بھی رورہی تھی اور میرے آنسو بھی بہہ رہے تھے۔

سعدیہ روتے ہوۓ کمرے سے نکل گئ۔ میں نے جلدی سے پینو اور سکینہ کو اللہ حا فظ کہا اور سعدیہ کے پیچھے دوڑا۔ سعدیہ نے اپنے کمرے میں داخل ہو کر دروازہ بند کرلیا۔ ماں دوڑتی آئیں۔ اور مجھ سے پوچھنے لگیں کیا ہوا؟ میں نے کہا۔” ننھی۔ دوازہ کھولو“۔

” چلے جاؤ یہاں سے ، مجھ کو تم سب مردوں سے نفرت ہے“۔ سعدیہ نےروتے ہوۓ کہا۔

میں نے ماں کو پینو سے ہماری گفتگو کا بتادیا۔

ماں نے کہا”۔ بیٹا تم سعدیہ سے ابھی بات نہ کرو۔ یہ گتھی اس کو خود سلجھانی ہوگی۔ تم صبر اور تحمل سے کام لو۔ وہ زخمی ہے۔اُس کو مرد پر سے اعتبار اٹھ گیا۔ ہر مرد اس کے لیے ایک سا ہے۔ یہ چند روز کی بات ہے۔ اس کو یاد آجاۓ گا کہ مرد بھی دو طرح کے ہوتے ہیں۔ اچھے اور بُرے، وہ جانتی ہے کہ اس کا باپ اور بھائی دنیا کے بہترین انسان ہیں“۔