صفحہ 8 - گل و بلبل


” تم نئ لڑکی ہو۔ تمھارا کیا نام ہے؟“۔

میں نے شرما کرکہا۔” گل، سب مجھ کوگل کہتے ہیں۔ میرے بابا مجھ کو اپنی بلبل کہتے ہیں“۔

اتنے میں ماسی باورچی خانہ میں واپس داخل ہوئ۔ بی بی آپ یہاں؟ آپ نےگھنٹی بجائ ہوتی تو میں نورا کو بھیج دیتی۔ کیا چاہیے؟“

” ماسی میں امی سے کہوں گی کہ گل کو میرے پاس رکھیں“۔

بی بی جیسی آپ کی مرضی۔ مگر ہمیں گل کوشادی کے قابل بھی تو کرنا ہے؟“

” اچھا، تویہ صرف اس وقت دوسرے کام کرے گی۔ جب میں کالج جاؤں“۔

” چلوگل تم میرے ساتھ آؤ“۔

ہماری ماں نے کھلے ہوۓ دروازہ پر کھٹکھٹایا۔ہر چیز خیریت سے ہے؟ ہاں سعدیہ نے روتے ہوے جواب دیا۔ کمپیوٹر کا آڈیو چلا گیا اور اسکرین پر میرے اسائنمنٹ کا صفحہ واپس آگیا اور اس پر اچھائ کے virtue کی ایک آوٹ لائن موجود تھی۔

ماں نےصوفہ کے بیچ میں بیٹھ کر سعدیہ اور مجھ سے سوال کیا”۔ تم دونوں میں لڑائ ہوئ نا“۔ ” نہیں ماں ، میں اپنے لیے رورہی ہوں۔ میں ، میری بہن گل کے لیے رورہی ہوں۔ میں صوبہ پختونخواہ اور پاکستان کی عورتوں کے لے رورہی ہوں“۔

اور سعدیہ سسکیاں لینے لگی۔ ماں نے سعدیہ کا سر اپنی گود میں رکھ کیا۔اور اُنگلیوں سےاس کے بالوں میں کنگھی کرنے لگیں اور پھر میری طرف دیکھا۔ میں اپنے جذبات پر قابو پاچکا تھا۔