صنم پاس ہے اور شب ماہ ہے

صنم پاس ہے اور شب ماہ ہے
by میر حسن دہلوی

صنم پاس ہے اور شب ماہ ہے
یہ شب ہے کہ اللہ ہی اللہ ہے

ترے ناز کیوں کر اٹھاؤں نہ میں
مری دوستی پر تو گمراہ ہے

تجھے ہوش اتنا نہیں بے خبر
مرے حال سے کب تو آگاہ ہے

ترا نام لیتے نکلتی ہے آہ
مری آہ کے دل میں کیا آہ ہے

کہاں برق عشق و کہاں کوہ صبر
بگولے کے آگے پر کاہ ہے

میں کیوں کر کہوں تجھ کو فرصت نہیں
پہ یہ بات کب تیرے دل خواہ ہے

نہ آنے کے سو عذر ہیں میری جاں
اور آنے کو پوچھو تو سو راہ ہے

میں اک روز پوچھا جو اس شوخ سے
کہ کیوں کچھ تجھے بھی مری چاہ ہے

تو ہنس کر لگا کہنے کیا خوب کیوں
تو میرا کہاں کا ہوا خواہ ہے

یہ سن کر جو میں چپ رہا تو کہا
ابے دل کا مالک تو اللہ ہے

حسنؔ وصل اور ہجر میں یار کے
کبھی آہ ہے اور کبھی واہ ہے

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse