صنم ہزار ہوا تو وہی صنم کا صنم
صنم ہزار ہوا تو وہی صنم کا صنم
کہ اصل ہستی نابود ہے عدم کا عدم
اسی جہان میں گویا مجھے بہشت ملی
اگر رکھو گے مرے پر یہی کرم کا کرم
ابھی تو تم نے کئے تھے ہماری جاں بخشی
پھر ایک دم میں وہی نیمچا علم کا علم
وو گل بدن کا عجب ہے مزاج رنگا رنگ
فجر کوں لطف تو پھر شام کوں ستم کا ستم
نہ رکھ سراجؔ کسی خوب رو سیں چشم وفا
صنم ہزار ہوا تو وہی صنم کا صنم
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |