صورت کا اپنی یار پرستار تھا سو ہے

صورت کا اپنی یار پرستار تھا سو ہے
by عشق اورنگ آبادی

صورت کا اپنی یار پرستار تھا سو ہے
آئینہ دل اس کو جو درکار تھا سو ہے

یہ دل ہے تیغ ابروئے خم دار کا شہید
اس کا گواہ دیدۂ خم دار تھا سو ہے

مالک ہے میرے دل کا خدا تجھ سے اے صنم
پیوستہ بندگی کا جو اقرار تھا سو ہے

ظاہر میں گرچہ کفر سے منکر ہوا ہے شیخ
پوشیدہ اس کی سبحہ میں زنار تھا سو ہے

تجھ خط کی یاد میں دل حیران عشق کا
در نجف کی طرح سے مودار تھا سو ہے

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse