طالب علم
by میراجی
304665طالب علممیراجی

تمہیں معلوم ہے تیمور کی فوجیں جس وقت
اپنے دشمن پہ بڑھا کرتی تھیں
عورتیں پیچھے رہا کرتی تھیں
اور جو عالم تھے فاضل تھے ان انسانوں کا جرگہ سب کے
پیچھے پیچھے ہی چلا کرتا تھا
کس لیے سب کو رہ زیست پہ ہر گام بڑھانے والے
سب سے پیچھے ہی چلا کرتے ہیں
علم میں ایک ہی بنیادی کمی ہے ورنہ
علم ہر ایک زمانے میں ہر ایک شے سے ترقی پاتا
آج اقبال یہ کہتا ہے کہ عورت ہی کا شعلہ وہ جس سے یونان
حشر تک علم فلاطون سے رہے گا زندہ
آج اسکول میں کالج میں مقام اول
عورتوں کے لیے مخصوص کیے جاتے ہیں
آج انگریزی پڑھی جاتی ہے جغرافیہ تاریخ ہر اک علم یہاں
ایسے استاد سکھاتا ہے کہ جیسے ہم کو
یہی معلوم نہیں ہے کہ جو عالم تھے جو فاضل تھے ان انسانوں کا جرگہ سب سے
پیچھے پیچھے ہی بڑھا کرتا تھا
عورتیں ان سے ذرا آگے رہا کرتی تھیں
عورتیں آج بھی آگے ہی رہا کرتی ہیں
عورتیں آج بھی کہتی ہیں ہمارے گیسو
چاہے بکھرے ہوں کہ ایک جوڑے میں پابند کیے بیٹھے ہوں
دیکھنے والوں کی ناکام تمناؤں کو
ایک ہی ہاتھ کے پابند ہوا کرتے ہیں
وہی اک ہاتھ جو تلوار کو پہلو میں لیے
سب سے آگے ہی چلا کرتا ہے
اس کو کچھ علم کی پرواہ نہیں (عورت کی بھی پرواہ کیا ہے)
اس کو کچھ علم نہیں کیسے فلاطوں پل میں
اک شرر بن کے بجھا کرتا ہے

سامنے تو ہے مگر تیرا منور چہرہ
اسی جاہل کو نظر آتا ہے
جو یہ کہتا ہے کہ تیمور کی فوجیں جس وقت
اپنے دشمن پہ بڑھا کرتی تھیں
عورتیں پیچھے رہا کرتی تھیں
اور جو عالم تھے جو فاضل تھے وہ یہ سوچتے تھے
ہار کس شخص کی ہے جیت ہے کس کی چھوڑو
ہم بھی کن چھوٹی سی باتوں میں الجھ بیٹھے ہیں
چلتے چلتے مجھے تیزی سے خیال آیا ہے
تیرا یہ جوڑا جو کھل جائے بکھر جائے تو پھر کیا ہوگا
میری تاریخ کہ تیری تاریخ
پھیل کر آج پہ (اور کل پہ بھی) چھا جائے گی
سوچنے والے کو اک پل میں بتا جائے گی
عورتیں پیچھے اگر ہوں بھی تو آگے ہی رہا کرتی ہیں
اور فلاطوں کا چچا ہاتھ میں تلوار لیے آگے بڑھا کرتا ہے
لو وہ جوڑا بھی فلاطوں ہی سے کچھ کہنے لگا
اور رستے میں اسے کون ملے گا تیمور
اور وہ اس سے کہے گا کہ یہاں کیوں آئی
جا مرے پیچھے چلی جا کہ ترے پیچھے ہمیشہ ہر دم
علم یوں رینگتے ہی رینگتے بڑھتا جائے
جیسے ہر بات کے پیچھے ہر بات
رینگتے رینگتے بڑھتی ہی چلی جاتی ہے
اور ہر ایک فلاطوں جو شرر بن کے چمکتا ہے وہ مٹ جاتا ہے


This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.