طالب علم
تمہیں معلوم ہے تیمور کی فوجیں جس وقت
اپنے دشمن پہ بڑھا کرتی تھیں
عورتیں پیچھے رہا کرتی تھیں
اور جو عالم تھے فاضل تھے ان انسانوں کا جرگہ سب کے
پیچھے پیچھے ہی چلا کرتا تھا
کس لیے سب کو رہ زیست پہ ہر گام بڑھانے والے
سب سے پیچھے ہی چلا کرتے ہیں
علم میں ایک ہی بنیادی کمی ہے ورنہ
علم ہر ایک زمانے میں ہر ایک شے سے ترقی پاتا
آج اقبال یہ کہتا ہے کہ عورت ہی کا شعلہ وہ جس سے یونان
حشر تک علم فلاطون سے رہے گا زندہ
آج اسکول میں کالج میں مقام اول
عورتوں کے لیے مخصوص کیے جاتے ہیں
آج انگریزی پڑھی جاتی ہے جغرافیہ تاریخ ہر اک علم یہاں
ایسے استاد سکھاتا ہے کہ جیسے ہم کو
یہی معلوم نہیں ہے کہ جو عالم تھے جو فاضل تھے ان انسانوں کا جرگہ سب سے
پیچھے پیچھے ہی بڑھا کرتا تھا
عورتیں ان سے ذرا آگے رہا کرتی تھیں
عورتیں آج بھی آگے ہی رہا کرتی ہیں
عورتیں آج بھی کہتی ہیں ہمارے گیسو
چاہے بکھرے ہوں کہ ایک جوڑے میں پابند کیے بیٹھے ہوں
دیکھنے والوں کی ناکام تمناؤں کو
ایک ہی ہاتھ کے پابند ہوا کرتے ہیں
وہی اک ہاتھ جو تلوار کو پہلو میں لیے
سب سے آگے ہی چلا کرتا ہے
اس کو کچھ علم کی پرواہ نہیں (عورت کی بھی پرواہ کیا ہے)
اس کو کچھ علم نہیں کیسے فلاطوں پل میں
اک شرر بن کے بجھا کرتا ہے
سامنے تو ہے مگر تیرا منور چہرہ
اسی جاہل کو نظر آتا ہے
جو یہ کہتا ہے کہ تیمور کی فوجیں جس وقت
اپنے دشمن پہ بڑھا کرتی تھیں
عورتیں پیچھے رہا کرتی تھیں
اور جو عالم تھے جو فاضل تھے وہ یہ سوچتے تھے
ہار کس شخص کی ہے جیت ہے کس کی چھوڑو
ہم بھی کن چھوٹی سی باتوں میں الجھ بیٹھے ہیں
چلتے چلتے مجھے تیزی سے خیال آیا ہے
تیرا یہ جوڑا جو کھل جائے بکھر جائے تو پھر کیا ہوگا
میری تاریخ کہ تیری تاریخ
پھیل کر آج پہ (اور کل پہ بھی) چھا جائے گی
سوچنے والے کو اک پل میں بتا جائے گی
عورتیں پیچھے اگر ہوں بھی تو آگے ہی رہا کرتی ہیں
اور فلاطوں کا چچا ہاتھ میں تلوار لیے آگے بڑھا کرتا ہے
لو وہ جوڑا بھی فلاطوں ہی سے کچھ کہنے لگا
اور رستے میں اسے کون ملے گا تیمور
اور وہ اس سے کہے گا کہ یہاں کیوں آئی
جا مرے پیچھے چلی جا کہ ترے پیچھے ہمیشہ ہر دم
علم یوں رینگتے ہی رینگتے بڑھتا جائے
جیسے ہر بات کے پیچھے ہر بات
رینگتے رینگتے بڑھتی ہی چلی جاتی ہے
اور ہر ایک فلاطوں جو شرر بن کے چمکتا ہے وہ مٹ جاتا ہے
This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author. |