طریق عشق میں دیکھا ہے کیا کہیں کیوں کر

طریق عشق میں دیکھا ہے کیا کہیں کیوں کر
by کیفی حیدرآبادی

طریق عشق میں دیکھا ہے کیا کہیں کیوں کر
ہماری آنکھ کھلی ہے مقام حیرت میں

اگر خلل ہے تو زاہد مرے دماغ میں ہے
ہزار شکر نہیں ہے فتور نیت میں

بلند و پست کی اس کے کچھ انتہا ہی نہیں
عجیب چیز ہے انسان بھی حقیقت میں

یہ بزم غیر ہے کیفیؔ کدھر گئے ہیں حواس
کہاں تم آ گئے کیا آ گئی طبیعت میں

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse