طفلِ شِیر خوار

طفلِ شِیر خوار (1924)
by محمد اقبال
295898طفلِ شِیر خوار1924محمد اقبال

مَیں نے چاقو تجھ سے چھِینا ہے تو چِلّاتا ہے تُو
مہرباں ہوں مَیں، مجھے نا مہرباں سمجھا ہے تُو
پھر پڑا روئے گا اے نوواردِ اقلیمِ غم
چُبھ نہ جائے دیکھنا! باریک ہے نوکِ قلم
آہ! کیوں دُکھ دینے والی شے سے تجھ کو پیار ہے
کھیل اس کاغذ کے ٹکڑے سے، یہ بے آزار ہے

گیند ہے تیری کہاں، چینی کی بِلّی ہے کد ھر؟
وہ ذرا سا جانور ٹُوٹا ہُوا ہے جس کا سر
تیرا آئینہ تھا آزادِ غبارِ آرزو
آنکھ کھُلتے ہی چمک اُٹھّا شرارِ آرزو
ہاتھ کی جُنبش میں، طرزِ دید میں پوشیدہ ہے
تیری صورت آرزو بھی تیری نوزائیدہ ہے
زندگانی ہے تری آزادِ قیدِ امتیاز
تیری آنکھوں پر ہوَیدا ہے مگر قُدرت کا راز

جب کسی شے پر بگڑ کر مجھ سے، چِلّاتا ہے تُو
کیا تماشا ہے رَدی کاغذ سے من جاتا ہے تُو
آہ! اس عادت میں ہم آہنگ ہوں مَیں بھی ترا
تُو تلوّن آشنا، مَیں بھی تلوّن آشنا
عارضی لذّت کا شیدائی ہوں، چِلّاتا ہوں مَیں
جلد آ جاتا ہے غصّہ، جلد من جاتا ہوں مَیں
میری آنکھوں کو لُبھا لیتا ہے حُسنِ ظاہری
کم نہیں کچھ تیری نادانی سے نادانی مری
تیری صورت گاہ گریاں گاہ خنداں مَیں بھی ہوں
دیکھنے کو نوجواں ہوں، طفلِ ناداں مَیں بھی ہوں


This work is now in the public domain in Pakistan because it originates from Pakistan and its term of copyright has expired. According to Pakistani copyright laws, all photographs enter the public domain fifty years after they were published, and all non-photographic works enter the public domain fifty years after the death of the creator.