طویلے کی بلا

طویلے کی بلا (1954)
by سعادت حسن منٹو
319910طویلے کی بلا1954سعادت حسن منٹو

مملکت میں ہر چہار اکناف سے یہ تشویش ناک خبریں موصول ہو رہی تھیں کہ ’’بوزنیت‘‘ کی لہریں بڑھتی جا رہی ہیں۔ شروع شروع میں تو سرکار نے اس طرف کوئی خاص توجہ نہ دی، مگر جب دیکھا کہ پانی سر سے گزرنے والا ہے تو وہ اپنی مشینری حرکت میں لائی۔ قارئین کو بتا دینا ضروری معلوم ہوتا ہے کہ یہ ’’بوزنیت‘‘ کیا تھی۔ اس کی تفصیل میں تو ہم جا نہیں سکتے کہ یہ ایک قصہ طولانی ہے۔ اجمالی طور پر اتنا کہنا کافی ہے کہ یہ تحریک بندروں نے شروع کی تھی، انسانوں کے خلاف۔۔۔!

ان کا یہ کہنا تھا کہ جب یہ طے ہو چکا ہے کہ انسان ہماری اولاد ہیں، تو پھر ہم سے یہ بے رخی کیوں برتتے ہیں، صرف بے رخی ہی نہیں، بلکہ ہمارے ساتھ نہایت ہی غیر بوزنانہ سلوک روا رکھتے ہیں۔ ہمارے گلے میں رسی باندھ کر ڈگڈگی بجا کر، گلی گلی، کوچے کوچے پھراتے نچاتے اور خود بھیک مانگتے پھرتے ہیں۔۔۔ جیسے ہم انسان ہیں۔۔۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ ہم انسانوں کے اب و جد ہیں۔۔۔ ان کی رگوں میں ہمارا خون دوڑ رہا ہے، مگر یہ کون کہتا ہے کہ یہ ارتقائی منازل طے کر کے انسان بن گئے ہیں۔۔۔ اگر کوئی ارتقائی منازل نہیں، تو ہم۔۔۔ ۔ اتنے کروڑ بندر، آپ انہیں اقلیت کہہ لیجئے (حالانکہ اگر بندر شماری کی جائے تو ہماری تعداد انسانوں کے مقابلے میں یقیناً زیادہ نکلے گی) ان ارتقائی منازل سے کیوں نہ گزرے۔

یہ ارتقائی منازل۔۔۔ بندروں کا کہنا تھا۔۔۔ کیوں خاص بندروں تک محدود رہیں۔ اصل میں ارتقاء وغیرہ سب بکواس ہے۔ ان لوگوں نے کوئی ترقی نہیں کی۔ بلکہ ہم تو یہ کہتے ہیں کہ یہ تنزلی کی طرف گئے ہیں، اس لئے کہ یہ اپنے مقام پر نہیں رہ سکے۔ جو مرتبہ ان کے لئے ودیعت تھا، اس سے گر کر، بوزنیت سے منحرف ہو کر، یہ ایسے گرے کہ انسان بن گئے۔ ان کا ارتقاء دراصل ان کی افتاد ہے۔۔۔ ہم چاہتے ہیں کہ یہ افتادہ بندر، از سر نو اپنی اصلیت کی طرف لوٹ آئیں اور یہ تحریک اسی غرض سے شروع کی گئی ہے۔ ہمیں ان سے کوئی بغض نہیں، کوئی دشمنی نہیں، ہم انہیں اپنے گمراہ بھائی (یا بہنیں) سمجھتے ہیں۔ ہماری تحریک کا مقصد صرف یہ ہے کہ یہ بندر جو آج کل انسان بنے پھرتے ہیں اور ہماری غفلت کے باعث صاحب اقتدار ہو بیٹھے ہیں، اپنی اصیلت پہچانیں اور واپس ہمارے مجلسی دائرہ میں چلے آئیں۔

تقریریں عام ہوتی تھیں، سربازار۔۔۔ درون خانہ۔۔۔ خفیہ میٹنگوں میں۔۔۔ جن کا لب لباب یہ تھا کہ بندر نے انسان کا بہروپ بھر کر جو ظلم و تشدد اور جبر و قہر کا دورہ دورہ شروع کیا ہے، اس کا پرامن احتجاج کیا جائے، جگہ جگہ جلسے کئے جائیں، ہر کوچہ و بازار میں جلوس نکالے جائیں اور یہ نعرے بلند کئے جائیں۔

انسانیت مردہ باد!
بوزنیت زندہ باد!

شروع شروع میں تو انسانوں نے سمجھا کہ یہ سب تماشا ہے، چنانچہ وہ محظوظ ہوتے رہے۔۔۔ لیکن آہستہ آہستہ بندروں کی تقریریں، ان کا استدلال، ان کا نظریہ، ان کے دل میں جگہ پکڑنے لگا، چنانچہ جیسا کہ خفیہ پولیس کی اطلاعات سے سرکار کو پتہ چلا، کئی انسان، ان بندروں کے مرید ہوئے اور بعض مصدقہ اطلاعوں نے یہ بھی بتایا کہ متعدد انسان، اپنی انسانیت کھو کر بندر ہو گئے ہیں۔۔۔ یعنی کہ ان کے دم اگ آئی ہے اور وہ چار پنجوں کے بل چلتے ہیں۔ اعلیٰ حکام نے سمجھا کہ یہ سب بکواس ہے، بندر انسان بن سکتا ہے، یہ تو ایک مانی ہوئی حقیقت ہے، لیکن انسان، بندر کیسے بن سکتا ہے۔ ایسی ترقی معکوس، دید تھی نہ شنید۔ چنانچہ انہوں نے سرکار کے مشورے سے یہ پروپیگنڈا بڑے زوروں پر شروع کر دیا کہ انسان کبھی بندر نہیں بن سکتا۔

ادھر بھی۔۔۔ یعنی بندروں میں بڑی بڑی قابل ہستیاں موجود تھیں۔ فوراً انہوں نے اس پروپیگنڈے کا جو جواب دیا کہ جب اس زمانے میں مرد عورت بن سکتا ہے یا عورت مرد بن سکتی ہے تو کیا وجہ ہے کہ انسان بندر نہیں بن سکتا جو کہ اس کا اصل روپ ہے۔ بندروں پر انسانوں کے پروپیگنڈے کا کچھ اثر ہوا تھا اور وہ انسان جو ابھی مکمل طور پر بندر نہیں ہوئے تھے۔ تذبذب کی حالت میں تھے کہ وہ بندر بن جائیں یا پھر انسان ہو جائیں، لیکن بندروں کے اس جواب نے ان کی متزلزل دماغی اور جسمانی کیفیت سنبھال لی۔ بندروں کے پروپیگنڈا سیکرٹری نے بڑے زور شور سے حملہ شروع کر دیا۔ اس کا سب سے مضبوط نکتہ یہ تھا کہ انسان ہم سے بنے ہیں۔۔۔ اور صرف گمراہی کے باعث۔۔۔ کیا انسانوں کے پاس اس کا کوئی جواب ہے کہ وہ ہماری بگڑی ہوئی شکل نہیں۔

سچ پوچھئے تو انسان کے پاس اس کا کوئی جواب نہیں تھا، لیکن وہ برابر کہتے رہتے تھے صرف انسانوں کو کہ دیکھو، ہم نے بڑی کوششوں، بڑے مرحلوں کے بعد یہ رتبہ حاصل کیا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ہم اصلاً بندر تھے، لیکن یہ صرف ہماری قوت ارادی تھی۔ ہماری شب و روز کی کشمکش تھی کہ ہم اس ارفع و اعلیٰ مقام پر پہنچ گئے۔۔۔ ایک دوڑ تھی جس میں ہم جیت گئے اور باقی ہار گئے۔۔۔ جو ہارے ہوئے ہیں، وہ ابھی تک بندر کے بندر ہیں۔۔۔ جب یہ ہمیں اونچے مقام پر دیکھتے ہیں تو جلتے ہیں۔۔۔ انہیں جلنے دو، ہم مشعل ارتقاء ہاتھ میں تھامے آگے بڑھتے جائیں گے۔۔۔ اور بہت ممکن ہے خدا بن جائیں۔

بندر کہتے تھے۔۔۔ برادران وہ کون سی منزل ہے جس پر آپ پہنچے ہیں۔ ہم تو کہتے ہیں کہ آپ تنزل کی گہرائیوں میں اتر رہے ہیں۔۔۔ ارتقاء کا مسئلہ اپنی جگہ درست ہے۔ ہم اس سے منحرف نہیں، لیکن یہ تو بتایئے اتنی منازل طے کرنے اور اتنی صدیاں معاشرے پر معاشرے بنانے کے بعد آپ کا کیا حال ہے۔۔۔ آپ کی ساری تاریخ جنگ وجدال، کشت و خون، آبروریزی و عصمت دری، حکمرانیوں اور محکومیوں سے بھری پڑی ہے۔۔۔ آپ ہماری۔۔۔ یعنی اپنے آباؤ اجداد کی تاریخ پر نظر ڈالئے۔۔۔ کیا آپ کو ایسی کوئی تاریک مثال ڈھونڈے بھی مل سکتی ہے۔۔۔ ہم ایک شاخ سے دوسری شاخ پر کودتے ہیں۔۔۔ مگر اس شاخ پر اپنی ملکیت کے لئے ہم کبھی نہیں لڑے۔۔۔

تم لوگ۔۔۔ یعنی انسان، اپنی کتابوں میں ہماری کہانیاں لکھتے رہے ہو۔ جن میں سے ایک بہت مشہور ہے کہ ہم نے ایک دوسرے کی دم پکڑ پکڑ کر دریا پر پل باندھ دیا تھا۔ تم پل باندھتے ہو۔۔۔ بڑے بڑے پل باندھتے ہو کہ تم انسانوں کی عقل ششدر رہ جاتی ہے، لیکن یہ پل تم خود ہی اڑا دیتے ہو۔۔۔ ہمارا باندھا ہوا پل کون اڑا سکتا ہے۔۔۔؟ ہم میں سے کسی کی دم آج تک غدار نہیں ہوئی۔۔۔ ہم میں سے کسی کی بیوی آج تک کسی دوسرے بندر سے ہم آغوش نہیں ہوئی۔۔۔ ہماری بیویاں، ہماری جوئیں نکالتی ہیں، ہر روز ہمارے بالوں میں کنگھی کرتی ہیں۔۔۔ لیکن اس کے باوجود ان کے حقوق ویسے ہی ہیں جیسے ہمارے ہیں۔ تمہاری بیویاں جو جھک مارتی ہیں۔ تم ان سے غافل نہیں ہو۔۔۔ اور جو تم جھک مارتے ہو، ان سے تمہاری بیویاں بھی غافل نہیں۔۔۔

جن معنوں میں تم ہمیں بندر کہتے ہو، اصل میں تم بندر ہو۔۔۔ اور جن معنوں میں تم خود کو انسان کہتے ہو، اصل میں وہ ہم ہیں۔۔۔ اور بات اور اصل صرف یہ ہے کہ تم ہماری نسل میں سے ہو۔۔۔ اور جب خون ایک ہو تو کسی نہ کسی جگہ مطابقت آ ہی جاتی ہے اور شاید جو چپقلش ہے۔ وہ بھی اسی وجہ سے ہے۔۔۔ آؤ، ہم تمہیں واپس اپنی آغوش میں بلاتے ہیں۔۔۔ انسانیت کو مردہ باد کہہ کر بوزنیت زندہ باد کہتے ہوئے ہمارے پاس لوٹ آؤ۔ تم یہاں خوش رہو گے۔

ادھر سے یہ کہا جاتا، ’’بوزنوں نے بکواس کی ہے۔ وہ ہماری رفعت پرخار کھاتے ہیں۔ ایک کہانی جو ہم نے ان کے متعلق جانے کس تاثر کے ماتحت اور وہ بھی صرف بچوں کے لئے تصنیف کر دی تھی مستند نہیں سمجھی جا سکتی۔۔۔ ورنہ بندر کے انصاف کا قصہ کون نہیں جانتا۔ جس نے دوبلیوں کی شکایت کا تصفیہ یوں کیا تھا کہ اپنی میزان عدل میں پنیر کا متنازع فیہ ٹکڑہ تول تول کر خود کھا گیا تھا۔‘‘

اس کا جواب بندروں نے یہ دیا کہ، ’’ میزان اور بٹے انسانوں کی ایجاد ہیں، ہم تو ان کا استعمال ہی نہیں جانتے۔ اصل میں وہ بندر جس نے بلیوں کو دھوکا دیا تھا خود انسان تھا۔۔۔ اور کیا اس میں کوئی شک ہے کہ وہ بلیوں کو دھوکا نہیں دیتا۔۔۔ ہم ایسی ہزارہا بلیاں پیش کر سکتے ہیں جن کو یہ انسان، جو کبھی ہمارے بھائی تھے چھچھڑوں اور دودھ کے بدلے، دال اور گوبھی پر پال رہے ہیں۔ اپنی فطرت مسخ کر کے، یہ دوسروں کی فطرت و جبلت فنا کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔ ہمارے عدل کا مذاق اڑانے والے اپنے گریبان میں منہ ڈال کر دیکھیں تو انہیں اپنی بنائی ہوئی عدالتیں نظر آ سکتی ہیں۔ بڑ ی بڑی عدالتیں جہاں ہر روز انصاف کا خون ہوتا ہے۔ جہاں ہر روز سیکڑوں بلکہ ہزاروں بے گناہ، یہ خود پھانسی کے پھندے میں دیتے ہیں لیکن ہم پھر کہتے ہیں کہ یہ ہمارے بھائی ہیں۔۔۔ جو گمراہ ہو گئے ہیں۔۔۔ ہماری آغوش ان کے واسطے ہر وقت کھلی ہے۔۔۔ ہماری دعائیں ہر وقت ان کے ساتھ ہیں ہم ان سے کوئی بدلہ نہیں لینا چاہتے۔‘‘

لیکن آہستہ آہستہ یہ آواز تبدیل ہوتی گئی اور بندروں کے کیمپ سے یہ صدا آنے لگی کہ ہم انتقام لینا چاہتے ہیں۔۔۔ اس ارتقاء سے۔۔۔ اس نام نہاد ارتقاء سے جو بزعم خود ان بندروں نے خود پر طاری کیا اور انسان بن گئے۔ ادھر انسانوں کی طرف سے بھی سخت اقدام عمل میں آئے۔ ہزاروں بندر گرفتار کئے گئے، سیکڑوں پر مقدمے چلے اور پھانسی پر لٹکائے گئے، لیکن بوزنیت کی تحریک ویسی کی ویسی مضبوط رہی۔ آخر انسانیت کی سرکار نے ’’بوزنیت‘‘ کو خلاف قانون قرار دے دیا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ جتنے بوزنے، تھے ان میں سے کچھ تو گرفتار ہوئے لیکن اکثر بالائے شجر چلے گئے۔ اب ان کو پکڑنا بہت مشکل تھا۔ کون جنگلوں میں ان کے پیچھے دوڑتا پھرے۔ بعض کے متعلق یہ بھی سننے میں آیا کہ وہ بڑے بڑے اعلیٰ انسانی حکام کی کوٹھیوں کے درختوں پر بسیرا کرتے تھے اور انہیں ہر قسم کی سہولتیں وہاں میسر تھیں۔ کیونکہ در پردہ یہ بھی ’’بوزنیت‘‘ کے حامی تھے، مگر خائف تھے کہ ان کے عہدے اور ان کی مسندیں ان سے چھن جائیں گی۔

یہ سلسلہ دیر تک جاری رہا۔ گرفتاریاں ہوتی رہیں۔ چوکوں میں ٹکٹکیاں نصب ہوئیں۔ درے لگائے گئے۔ کھالیں کھینچی گئیں۔ پیٹ کے بل چلایا گیا۔ کئی ایکٹ اور کئی آرڈیننس نافذ ہوئے مگر یہ بندر کے بچے باز نہ آئے، اپنی ہٹ پر قائم رہے۔ ان کی طرف سے کبھی کبھار ایجی ٹیشن ہوتی تھی۔ بعض اوقات وہ اکٹھے ہو کر انسانوں پر یلغار بھی بول دیتے تھے۔ بجلی کے تار اپنے تیز تیز دانتوں سے کاٹ دیتے تھے۔ روٹیاں چھین کر لے جاتے تھے۔ ڈگڈگیاں توڑ پھوڑ دیتے تھے۔ رسیاں تڑا کے نکل بھاگتے تھے۔ اندرونی طور پر کئی انسانوں کو حلقہ بگوش بوزنیت کرتے تھے۔ دیسی بم چلاتے تھے۔ دہشت زدگی پیدا کرتے تھے اور اکثر اپنی جان پر کھیل جاتے تھے۔ ان کی جماعت توڑ دی گئی تھی لیکن وہ منتشر ہونے کے باوجود منظم تھے۔ سرکار کا سر چکرا گیا تھا۔ کیا کرے اور کیا نہ کرے۔

اور جب ایسی صورت پیدا ہو جائے تو ظاہر ہے کہ انسان قریب قریب مجنوں ہو جاتا ہے۔ یہ میں اس لئے کہہ رہا ہوں کہ میں بھی انسانوں کی فہرست میں داخل ہوں، لیکن عجیب بات ہے اور خدا لگتی کہ بندر جیسے تھے ویسے ہی رہے یعنی بندر۔ ان کی حرکات ویسی ہی تھیں۔۔۔ کھلنڈرانہ۔ اس کے ہاتھ سے چھینا اور یہ جا وہ جا۔ اس کے ہاتھ سے بندوق لی اور لفٹ رائٹ کرتے چلتے بنے۔ اب آپ ان پر لاٹھی چارج کیجئے۔ آنسو بہانے والی گیس پھینکئے۔ مجال ہے جو ان پر کوئی اثر ہو۔ وہ تو جیسے سیماب پا تھے۔ آپ نشانہ تانتے ہیں، بندوق داغتے ہیں مگر وہ اچک کر آپ کے کاندھے پر بیٹھے ہیں اور قہقہے لگا رہے ہیں۔ اشک آور گیس چھوڑتے ہیں، مگر وہ پھدک کر اس کا رخ آپ کی طرف کر دیتے ہیں۔

سرکار کا ناک میں دم آ گیا تھا۔ خفیہ پولیس کی رپورٹ تھی کہ بندروں کی اس تحریک یا سازش یا اس کا جو کچھ بھی نام ہو، ان کی اپنی چلائی ہوئی ہر گز نہیں ہو سکتی۔ اس کے عقب میں وہ بڑے بڑے انسان کام کر رہے ہیں جو تفریح کے طور پر ’’بوزنیت‘‘ کے حامی ہو گئے ہیں اور مزید تفتیش پر یہ بات پایہ تصدیق کو پہنچ چکی تھی۔ یہ چیز سرکار کے لئے اور بھی زیادہ باعث تشویش تھی۔ بعض حکام کو تو یہ خدشہ لاحق ہو گیا تھا کہ ایسا نہ ہو وہ خود بھی اس بوزنائی جال میں پھنس جائیں اور اپنی تمام ارتقائی منازل طے کر کے واپس اسی حیوانیت میں چلے جائیں جن سے ان کے آباؤ اجداد نے بہت مشکل سےچھٹکارا حاصل کیا تھا۔ سرکار کے لاکھوں حیلوں کے باوجود بندروں کی تحریک دبی نہیں تھی۔ شہروں میں جگہ جگہ دن اور رات میں کئی مرتبہ کسی کوٹھے یا ممٹی پر کوئی بندر نمودار ہو جاتا تھا اور منہ کے ساتھ بھونپو لگا کر نعرے لگانے شروع کر دیتا تھا، ’’انسانیت مردہ باد، ڈگڈگی مردہ باد، بوزنیت زندہ باد!‘‘

ایک دن تو حد ہو گئی کہ خود سرکار عالیہ کے ڈرائنگ روم میں ایک من چلا بندر گھس گیا اور سگاروں کا ڈبہ کھول کر اس میں سے ایک سگار نکال پینے لگا۔ اب سرکارِ اعلیٰ بھنا رہے ہیں لیکن بندر ہنس ہنس کے بھبک رہا ہے۔ وہ اسے ڈراتے ہیں، دھمکاتے ہیں، لیکن وہ بچہ بوزنا ایسا ہے کہ ان کو خاطر ہی میں نہیں لاتا۔ کبھی اچک کر اس صوفے پر بیٹھتا ہے اور کبھی اس کرسی پر اور حرکات اس کی بعینہ اسی طرح کی تھیں جس طرح سرکار عالیہ کو محسوس ہوتا تھا کہ وہ آئینے میں اپنی شکل دیکھ رہے ہیں، وہ اتنی بھنائیں، اتنی بھنائیں اندر ہی اندر غصے اور بے بسی کے باعث انہوں نے اتنے پیچ و تاب کھائے کہ آخر رو پڑیں۔ یہ تمام باتیں ہمیں خاص ذرائع سے موصول ہوئی تھیں۔ ورنہ دوسرے دن اخباروں میں اعلان کیا گیا تھا کہ ایک گستاخ بندر نے سرکار عالیہ کے محل میں گھسنے کی کوشش کی، مگر پہرہ داروں نے اسے وہیں ڈھیر کر دیا۔

اس واقعہ کے بعد متعلقہ سرکاری محکموں کو کڑی ہدایت ہوئی تھی کہ وہ فوراً بندروں کے فتنے کی سرکوبی کریں اور جو ذرائع بھی استعمال کرنا چاہیں، انہیں اس کی اجازت ہے۔ خفیہ پولیس کے ناظم اعلیٰ کو بندروں کی اتنی فکر نہیں تھی۔ اس نے جب اپنے ماتحت افسروں کو بلایا تو ان سے کہا، ’’میں ان کی بھبکیوں اور گھڑ کیوں سے نہیں ڈرتا۔ میں ڈرتا ہوں ان انسانوں سے جو بوزنیت اختیار کر چکے ہیں میں ایک دقیقہ رس آدمی ہوں۔ میں سوچتا ہوں اگر بندر سے انسان بن کر ہم اتنی قیامتیں ڈھا سکتے ہیں، اس قدر فتنے برپا کر سکتے ہیں تو واپس بندر بن کر ہم خدا معلوم کیا کچھ کر سکتے ہیں۔ ترقی، خواہ وہ معکوس ہی کیوں نہ ہو، ہر لحاظ سے خطرناک ہوتی ہے۔ اس لئے میں تم سے یہی کہوں گا کہ ان انسانوں کا کھوج لگاؤ جو حلقہ بگوش بوزنیت ہو چکے ہیں۔ ان کو اگر تم نے پکڑ لیا تو سمجھو کہ بوزنیت کا خاتمہ ہے۔‘‘

اب خفیہ اور غیر خفیہ پولیس کی تمام کوششیں نوبوزنوں کو گرفتار کرنے پر مرکوز ہو گئیں، جو حرارت، ذہانت اور شرارت کا سرچشمہ تھے۔ اس ضمن میں کئی بندر پکڑے گئے۔ قلعے کی چار دیواری میں ان پر’’تھرڈ ڈگری‘‘ آزمائی گئی کہ وہ نوبوزنوں کا اتا پتا بتا دیں، مگر انہوں نے ایک لفظ اپنے منہ سے نہ نکالا اور کڑی سے کڑی اذیت خندہ پیشانی کے ساتھ برداشت کرتے رہے۔ ان کی بندریوں کی آبروریزی ان کی آنکھوں کے سامنے کی گئی مگر وہ پھر بھی باز نہ آئے۔ آخر تنگ آ کر ان کو گولی سے اڑا دیا گیا اور ان کی لاشیں مٹی کا تیل چھڑک کر جلا دی گئیں۔ دوسرے روز ہر شہر میں جگہ جگہ سائیکلواسٹائل پر چھپے ہوئے اشتہار چسپاں تھے۔ جس میں انسانوں کو ان کے اس ظلم و تشدد سے آگاہ کیا گیا تھا۔ اور نہایت ہی مؤثر الفاظ میں اپیل کی گئی تھی کہ جس انسان کا دل پسیجے، وہ انسانیت چھوڑ کر ہمارے حلقے میں چلا آئے کہ وہی اس کا اصل مقام ہے۔ یہ اشتہار فوراً ہی اتار لئے گئے مگر ہزاروں انسانوں کی نظر سے گزر چکے تھے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ان میں سے سیکڑوں بوزنیت کے حلقے میں شامل ہو گئے۔

سرکار کی کوئی تدبیر کارگر نہیں جاتی تھی۔ سارے چڑیا گھر (جس کو جیل بنا دیا گیا تھا) بندروں سے پر تھے۔ گرفتاریوں کے اعداد و شمار لئے گئے تو معلوم ہوا کہ تیس ہزار بندر سلاخوں کے پیچھے ہیں اور بڑے خوش ہیں۔ اگر سرکار ان سے غافل ہوتی تھی تو اندیشہ تھا کہ انقلاب برپا ہو جائے گا۔ اگر وہ اپنی گرفت مضبوط کرتی تھی اور ظلم و تشدد پر اترتی تھی تو اس کا نتیجہ یہ ہوتا تھا کہ خود انسانوں میں اس کے خلاف نفرت و حقارت کے جذبات بیدار ہو جاتے تھے۔۔۔ اس لئے کہ خون تو آخر ایک ہی تھا۔ آخر سرکار نے یہ سوچا کہ سر جوڑ کے کوئی ایسی ترکیب، کوئی ایسا حیلہ سوچنا چاہیئے کہ بوزنوں کی جماعت سے پابندی اٹھا لی جائے اور ایک کانفرنس منعقد کی جائے جن میں ان کے لیڈروں کو دعوت دی جائے کہ وہ اپنا نقطۂ نظر سمجھائیں تاکہ مصالحت کا کوئی قدم اٹھ سکے۔


This work is now in the public domain in Pakistan because it originates from Pakistan and its term of copyright has expired. According to Pakistani copyright laws, all photographs enter the public domain fifty years after they were published, and all non-photographic works enter the public domain fifty years after the death of the creator.