ظالم بتوں سے آنکھ لگائی نہ جائے گی
ظالم بتوں سے آنکھ لگائی نہ جائے گی
پتھر کی چوٹ دل سے اٹھائی نہ جائے گی
ہونے دو ہو رہے ہیں جو الفت کے تذکرے
بگڑوگے تم تو بات بنائی نہ جائے گی
کہہ دو یہ شمع سے کہ عبث تو ہے اشک بار
پانی سے دل کی آگ بجھائی نہ جائے گی
چلمن ہو یا نقاب ہو یا پردۂ حیا
صورت تری کسی سے چھپائی نہ جائے گی
ممکن ہے تیر ناز سے دل کو بچا بھی لوں
لیکن نظر کی چوٹ بچائی نہ جائے گی
آنکھیں خدا نے دی ہیں تو دیکھیں گے حسن یار
کب تک نقاب رخ سے اٹھائی نہ جائے گی
توبہ کو منہ لگا کے خجل ہوگے تم جلیلؔ
جام و سبو سے آنکھ ملائی نہ جائے گی
This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author. |