ظاہر تو ہے تو میں نہاں ہوں

ظاہر تو ہے تو میں نہاں ہوں
by اسماعیل میرٹھی
297551ظاہر تو ہے تو میں نہاں ہوںاسماعیل میرٹھی

ظاہر تو ہے تو میں نہاں ہوں
باطن تو ہے تو میں عیاں ہوں

تو ہی ظاہر ہے تو ہی باطن
تو ہی تو ہے تو میں کہاں ہوں

تیرے ہوتے کہیں نہیں میں
اول آخر نہ درمیاں ہوں

تو تو میں میں نے مار ڈالا
دم بند ہے کیجئے نہ ہاں ہوں

میں ہی لیلیٰ ہوں میں ہی محمل
ناقہ بھی ہوں میں ہی سارباں ہوں

ہوں کنج قفس میں بند لیکن
بیرون زمین و آسماں ہوں

دریا کی طرح رواں ہوں لیکن
اب تک بھی وہیں ہوں میں جہاں ہوں

جز نام نہیں نشان میرا
سچ مچ میں بحر بیکراں ہوں


This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.