ظاہر فریب نرگس مستانہ ہو گیا
ظاہر فریب نرگس مستانہ ہو گیا
کچھ ہوشیار اب دل دیوانہ ہو گیا
آنسو بھرے ہیں آنکھ میں اس مست حسن کی
لبریز کس کی عمر کا پیمانہ ہو گیا
اظہار عرض وصل یہ باتیں نہیں وہاں
اک حرف مدعا انہیں افسانہ ہو گیا
پہلے کہاں تھا اس دل بیتاب کا یہ حال
کمبخت اس کو دیکھ کے دیوانہ ہو گیا
ہمدم شریک کوئی برے وقت کا نہیں
جب دل سا دوست عشق میں بیگانہ ہو گیا
عشق بتاں میں خانۂ دل کا رہا یہ حال
کعبہ بنا کبھی کبھی بت خانہ ہو گیا
ہر مے پرست جامۂ کے خسروی میں تھا
لبریز جب شراب سے پیمانہ ہو گیا
کی میں نے عرض وصل تو بولے رقیب سے
کیا ہوشیار شخص تھا دیوانہ ہو گیا
محمودؔ ہے بتوں سے وفا کی تجھے امید
پتھر سمجھ پہ پڑ گئے دیوانہ ہو گیا
This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author. |