ظلمت دشت عدم میں بھی اگر جاؤں گا
ظلمت دشت عدم میں بھی اگر جاؤں گا
لے کے ہمراہ مہ داغ جگر جاؤں گا
عارض گل ہوں نہ میں دیدۂ بلبل گلچیں
ایک جھونکا ہوں فقط سن سے گزر جاؤں گا
اے فنا ٹوٹ سکے گی نہ کبھی کشتی عمر
میں کسی اور سمندر میں اتر جاؤں گا
دیکھ جی بھر کے مگر توڑ نہ مجھ کو گلچیں
ہاتھ بھی تو نے لگایا تو بکھر جاؤں گا
ایک قطرہ ہوں مگر سیل محبت سے ترے
ہو سکے جو نہ سمندر سے بھی کر جاؤں گا
دور گلشن سے کسی دشت میں لے جا صیاد
ہم صفیروں کے ترانوں میں تو مر جاؤں گا
صحن گلشن میں کئی دام بچھے ہیں اے اثرؔ
اڑ کے جاؤں بھی اگر میں تو کدھر جاؤں گا
This work is now in the public domain in Pakistan because it originates from Pakistan and its term of copyright has expired. According to Pakistani copyright laws, all photographs enter the public domain fifty years after they were published, and all non-photographic works enter the public domain fifty years after the death of the creator. |