عارف ہے وہ جو حسن کا جویا جہاں میں ہے

عارف ہے وہ جو حسن کا جویا جہاں میں ہے
by حیدر علی آتش
294836عارف ہے وہ جو حسن کا جویا جہاں میں ہےحیدر علی آتش

عارف ہے وہ جو حسن کا جویا جہاں میں ہے
باہر نہیں ہے یوسف اسی کارواں میں ہے

پیری میں شغل مے ہے جوانانہ روز و شب
بوئے بہار آتی ہماری خزاں میں ہے

ہوتا ہے گل کے سونگھے سے دونا گرفتہ دل
مجھ سا بھی بد دماغ کم اس بوستاں میں ہے

پشت خمیدہ دیکھ کے ہوتا ہوں نعرہ زن
کرتا ہوں صرف تیر جو زور اس کماں میں ہے

دکھلا رہی ہے دل کی صفا دو جہاں کی سیر
کیا آئینہ لگا ہوا اپنے مکاں میں ہے

دیوانہ جو نہ عشق سے ہو آدمی نہیں
حسن پری کا جلوہ طلسم جہاں میں ہے

پروانوں کی طرح ہے ہجوم قدح کشاں
روشن چراغ بادہ جو مغ کی دکاں میں ہے

اس دل ربا کے کوچہ میں آگے ہوا سے جائے
اتنی تو جان اب بھی تن ناتواں میں ہے

دنیا سے کوچ کرنا ہے اک روز رہروو
بانگ جرس سے شور یہی کارواں میں ہے

پڑھ سکتا سر نوشت کا مطلب کوئی نہیں
معلوم کچھ نہیں کہ یہ خط کس زباں میں ہے

آئندہ و روندہ کی چلتی ہیں ٹھوکریں
جادہ جو اپنا تھا اسی خواب گراں میں ہے

کشتے ہیں باغ میں بھی تری تیغ ناز کے
بوئے شہید لالہ میں اور ارغواں میں ہے

عاشق کے رنگ زرد کو دیکھو تو ہنس پڑو
تاثیر اس میں بھی ہے وہ جو زعفراں میں ہے

معدوم وہ کمر ہے نہ موہوم وہ دہن
کہتے ہیں شاعر ان کے جو کچھ کچھ گماں میں ہے

گل ٹوٹتے ہیں ہوتے ہیں بلبل اسیر دام
صیاد مستعد مدد باغباں میں ہے

سرکش کی منزلت ہے سبک پیش خاکسار
وہ تمکنت زمیں کی کہاں آسماں میں ہے

سنبل سے حال گل ہوں میں یہ کہہ کے پوچھتا
کس سلسلہ میں تو ہے یہ کس خانداں میں ہے

دل میں خیال گیسوئے مشکیں ہے بد بلا
یہ مرغ روح کے لیے سانپ آشیاں میں ہے

حکمت سے ہے یہ خاک کا پتلا بنا ہوا
نور آنکھ میں ہے اس کے تو مغز استخواں میں ہے

آتشؔ بلند پایہ ہے درگاہ یار کی
ہفتم فلک کی رفعت اسی آستاں میں ہے


This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.