عاشقی کیا ہر بشر کا کام ہے

عاشقی کیا ہر بشر کا کام ہے
by جلیل مانکپوری

عاشقی کیا ہر بشر کا کام ہے
میرے دل میرے جگر کا کام ہے

ہو ہری شاخ تمنا یا نہ ہو
سینچ دینا چشم تر کا کام ہے

بڑھ چلے پیک تصور کا قدم
اب یہاں کیا نامہ بر کا کام ہے

دل مرا لے جانے والا کون تھا
یہ کسی جادو نظر کا کام ہے

ہم سے کیا ہو وصف قاتل کا بیاں
یہ لب زخم جگر کا کام ہے

موت جب آئے تو راہی جان ہو
اس سفر میں راہ بر کا کام ہے

فیصلہ ہونے میں دشواری ہے کیا
تیرے خنجر میرے سر کا کام ہے

آج آنسو تم نے پونچھے بھی تو کیا
یہ تو اپنا عمر بھر کا کام ہے

گل دکھاتے ہیں ہمیں کیا زخم تن
دل پہ کھانا کوئی چرکا کام ہے

دل سے لائے لب پہ ہم آہ و فغاں
اب تجھے لانا اثر کا کام ہے

در بدر پھرتے ہی گزری چرخ کو
یہ اسی بیداد گر کا کام ہے

آنکھوں آنکھوں میں اڑا لیتے ہیں دل
دل ربائی بھی نظر کا کام ہے

تیغ کیوں چلنے میں بل کھانے لگی
یہ تری نازک کمر کا کام ہے

سینے سے کچھ ہٹ کے ہے دل کی جگہ
اس جگہ ترچھی نظر کا کام ہے

بے چلے ہی پاؤں دیتے ہیں جواب
منزل الفت میں سر کا کام ہے

قدسیوں سے کون بازی لے گیا
یہ بشر ہے یہ بشر کا کام ہے

موتیوں سے منہ ترا بھرنا جلیلؔ
آصف عالی گہر کا کام ہے

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse