عاشقی کے آشکارے ہو چکے

عاشقی کے آشکارے ہو چکے (1926)
by یاسین علی خاں مرکز
304360عاشقی کے آشکارے ہو چکے1926یاسین علی خاں مرکز

عاشقی کے آشکارے ہو چکے
حسن یکتا کے پکارے ہو چکے

اٹھ گیا پردہ جو فی مابین تھا
من و تو کے تھے اشارے ہو چکے

ہے بہار گلشن دنیا دو روز
بلبل و گل کے نظارے ہو چکے

چل دیئے اٹھ کر جہاں چاہے وہاں
ایک رنگی کے سہارے ہو چکے

یاس سے کہہ دیں گے وقت قتل ہم
ہم تو اے پیارے تمہارے ہو چکے

واصل دریا جو قطرہ ہو گیا
غیریت کے تھے پکارے ہو چکے

گلشن ہستی میں دیکھی تھی بہار
اوج پر جو تھے ستارے ہو چکے

ورطۂ دریا کا غم جاتا رہا
غوطہ کھاتے تھے کنارے ہو چکے

نیک و بد سے تم کو مرکزؔ کیا غرض
دور دشمن تھے تمہارے ہو چکے


This work was published before January 1, 1929 and is anonymous or pseudonymous due to unknown authorship. It is in the public domain in the United States as well as countries and areas where the copyright terms of anonymous or pseudonymous works are 97 years or less since publication.