عاشق ہے جو تمہارے رخ سرخ رنگ کا
عاشق ہے جو تمہارے رخ سرخ رنگ کا
رہتا ہے اس کو نشہ شراب فرنگ کا
کہتے ہیں لوگ دیکھ تیرے رخ پہ خال کو
کیا حکم روم میں ہے سپہدار زنگ کا
اے رشک حور وسعت جنت میں بھی مجھے
تجھ بن ہے بے گمان یقیں گور تنگ کا
جب سے پتنگ ہوں میں ترے شمع رو کا یار
معلوم تھا نہ تجھ کو اڑانا پتنگ کا
خوف خدا نہ ہوتا تو رکھتا میں اے صنم
عرش عظیم نام تمہارے پلنگ کا
اے سبز رنگ مست مئے عشق و حسن تو
افیوں کو پوچھتے نہیں کیا ذکر بھنگ کا
خال رخ نگار ہیں چہرے خیال میں
بینی دکھائی دے ہے دونالی تفنگ کا
ماتم مرا ہے یار سوا ہم کو بزم نور
صوت بکا سے کم نہیں آواز چنگ کا
آتش کا شعر پڑھتا ہوں اکثر بحسب حال
دل صید ہے وہ بحر سخن کے نہنگ کا
وہ چشم گھات میں دل پر داغ کے نہیں
آہو کو ہے ارادہ شکار پلنگ کا
ناموس کا تو فکر ہے ماتمؔ عبث یہاں
یہ عشق خصم نام کا دشمن ہے ننگ کا
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |