عالم کے دوستوں میں مروت نہیں رہی
عالم کے دوستوں میں مروت نہیں رہی
شرم و حیا و مہر و شفقت نہیں رہی
ظاہر میں کیا رفیق کہاتے ہیں آپ کوں
لیکن انوں کے دل میں محبت نہیں رہی
ملتے ہیں راستی سیں جو کوئی کج نظر ملے
خوابوں میں پاک باز کی حرمت نہیں رہی
ہر خار بو الہوس کے کئے صحبت اختیار
تو حسن گل رخوں میں لطافت نہیں رہی
نا لایقوں میں عمر کوں کرناں عبث تلف
ہم صحبتی کی ان میں لیاقت نہیں رہی
بھولے ہیں ہر صنم کے کرشمے پہ ہوش کوں
ان زاہدوں میں کشف و کرامت نہیں رہی
سفلے ہوئے عزیز عزیز اب ہوئے خراب
بے جوہروں میں قدر شرافت نہیں رہی
مت ہو بہار گلشن دنیا کا عندلیب
اس پھولبن میں بوئے رفاقت نہیں رہی
اب ذات حق بغیر نہ رکھ دوستی سراجؔ
عالم میں آشنائی و الفت نہیں رہی
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |