عالم یاس میں گھبرائے نہ انسان بہت
عالم یاس میں گھبرائے نہ انسان بہت
دل سلامت ہے تو حسرت بہت ارمان بہت
کاش دو چار ہزاروں میں تو ہوں کافر عشق
ہم نے کعبے میں بھی دیکھے نہ مسلمان بہت
سر اٹھاتا نہیں تو شرم جفا سے ظالم
یا کیے ہیں کسی کم بخت نے احسان بہت
تم کہ بیداد کرو اور نہ شرماؤ ذرا
ہم کہ نا کردہ گنہ اور پشیمان بہت
حسرتیں روز نئی دل میں بھری جاتی ہیں
تھوڑے تھوڑے بھی ہوئے جاتے ہیں مہمان بہت
سوچیے دل میں تو ہے عشق نہایت دشوار
نہ سمجھئے تو یہی کام ہے آسان بہت
بزم احباب میں اے داغؔ کبھی تو ہنس بول
دیکھتے ہیں تجھے ہر وقت پریشان بہت
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |