عجب تو نے جلوہ دکھایا مجھے
عجب تو نے جلوہ دکھایا مجھے
کہ عالم میں پھر کچھ نہ بھایا مجھے
کروں کیا بیاں میں یہ احسان عشق
کہ قطرہ سے دریا بنایا مجھے
فدا ہوں میں اس ناز جاں بخش پر
کہ جوں جوں موا میں جلایا مجھے
تری زلف پیچاں نے اے رشک گل
ہزاروں بلا میں پھنسایا مجھے
رلایا کبھوں مجھ کو مانند ابر
کبھوں برق آسا ہنسایا مجھے
جو اپنے تئیں میں نے دیکھا بغور
سراپا نظر تو ہی آیا مجھے
میں ہوں شاہ خادم پر آثمؔ فدا
کہ جوں جوں میں بگڑا بنایا مجھے
This work was published before January 1, 1929 and is anonymous or pseudonymous due to unknown authorship. It is in the public domain in the United States as well as countries and areas where the copyright terms of anonymous or pseudonymous works are 100 years or less since publication. |