عجیب حسن ہے ان سرخ سرخ گالوں میں
عجیب حسن ہے ان سرخ سرخ گالوں میں
مئے دوآتشہ بھر دی ہے دو پیالوں میں
سنیں جو آپ تو سونا حرام ہو جائے
تمام رات گزرتی ہے جن خیالوں میں
امید و یاس نے جھگڑے میں ڈال رکھا ہے
نہ جینے والوں میں ہم ہیں نہ مرنے والوں میں
چمن میں گل بھی حنا بھی مگر نصیب کی بات
کوئی تو سر چڑھے کوئی ہو پائمالوں میں
نسیم شمع لحد کو ذرا بچائے ہوئے
یہی ہے ایک غریبوں کے رونے والوں میں
یہاں خزاں کا نہ کھٹکا نہ خوف گلچیں کا
بہار گل میں رہے یا تمہارے گالوں میں
نہیں ہے لطف کہ خلوت میں غیر شامل ہو
اٹھا دو شمع کو یہ بھی ہے جلنے والوں میں
چبھے گا کیا دل پر خوں کا راز آنکھوں سے
جو ہوگا شیشے میں آئے گا وہ پیالوں میں
ہزار شکر کہ ہم نقص میں ہوئے کامل
جلیلؔ رہ گئی بات اپنی ذی کمالوں میں
This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author. |