عدل جہانگیری

عدل جہانگیری
by شبلی نعمانی
294213عدل جہانگیریشبلی نعمانی

قصر شاہی میں کہ ممکن نہیں غیروں کا گزر
ایک دن نورجہاں بام پہ تھی جلوہ فگن
کوئی شامت زدہ رہ گیر ادھر آ نکلا
گرچہ تھی قصر میں ہر چار طرف سے قدغن
غیرت حسن سے بیگم نے طمنچہ مارا
خاک پر ڈھیر تھا اک کشتۂ بے گور و کفن
ساتھ ہی شاہ جہانگیر کو پہنچی جو خبر
غیظ سے آ گئی ابروئے عدالت پہ شکن
حکم بھیجا کہ کنیزان شبستان شہی
جا کے پوچھ آئیں کہ سچ یا کہ غلط ہے یہ سخن
نخوت حسن سے بیگم نے بصد ناز کہا
میری جانب سے کرو عرض بہ آئین حسن
ہاں مجھے واقعۂ قتل سے انکار نہیں
مجھ سے ناموس حیا نے یہ کہا تھا کہ بزن
اس کی گستاخ نگاہی نے کیا اس کو ہلاک
کشور حسن میں جاری ہے یہی شرع کہن
مفتی دیں سے جہانگیر نے فتویٰ پوچھا
کہ شریعت میں کسی کو نہیں کچھ جائے سخن
مفتی دین نے بے خوف و خطر صاف کہا
شرع کہتی ہے کہ قاتل کی اڑا دو گردن
لوگ دربار میں اس حکم سے تھرا اٹھے
پر جہانگیر کے ابرو پہ نہ بل تھا نہ شکن
ترکشوں کو یہ دیا حکم کہ اندر جا کر
پہلے بیگم کو کریں بستۂ زنجیر و رسن
پھر اسی طرح اسے کھینچ کے باہر لائیں
اور جلاد کو دیں حکم کہ ہاں تیغ بزن
یہ وہی نورجہاں ہے کہ حقیقت میں یہی
تھی جہانگیر کے پردہ میں شہنشاہ زمن
اس کی پیشانئ نازک پہ جو پڑتی تھی گرہ
جا کے بن جاتی تھی اوراق حکومت پہ شکن
اب نہ وہ نورجہاں ہے نہ وہ انداز غرور
نہ وہ غمزے ہیں نہ وہ عربدۂ صبر شکن
اب وہی پاؤں ہر اک گام پہ تھراتے ہیں
جن کی رفتار سے پامال تھے مرغان چمن
ایک مجرم ہے کہ جس کا کوئی حامی نہ شفیع
ایک بیکس ہے کہ جس کا نہ کوئی گھر نہ وطن
خدمت شاہ میں بیگم نے یہ بھیجا پیغام
خوں بہا بھی تو شریعت میں اک امر احسن
مفتئ شرع سے پھر شاہ نے فتویٰ پوچھا
بولے جائز ہے رضامند ہوں گر بچہ و زن
وارثوں کو جو دئیے لاکھ درم بیگم نے
سب نے دربار میں کی عرض کہ اے شاہ زمن
ہم کو مقتول کا لینا نہیں منظور قصاص
قتل کا حکم جو رک جائے تو ہے مستحسن
ہو چکا جب کہ شہنشاہ کو پورا یہ یقین
کہ نہیں اس میں کوئی شائبہ حیلہ و فن
اٹھ کے دربار سے آہستہ چلا سوئے حرم
تھی جہاں نورجہاں معتکف بیت خزن
دفعتاً پاؤں پہ بیگم کے گرا اور یہ کہا
تو اگر کشتہ شدی آہ چہ می کردم من


This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.