عدم کا خلا

عدم کا خلا
by میراجی
304656عدم کا خلامیراجی

ہوا کے جھونکے ادھر جو آئیں تو ان سے کہنا
یہاں کوئی ایسی شے نہیں جسے وہ لے جائیں ساتھ اپنے
یہاں کوئی ایسی شے نہیں جسے کوئی دیکھ کر یہ سوچے
کہ یہ ہمارے بھی پاس ہوتی

یہاں کوئی راہ رو نہیں ہے نہ کوئی منزل
یہاں اندھیرا نہیں اجالا نہیں کوئی شے نہیں ہے
گزرتے لمحوں کے آتشیں پاؤں اس جگہ پے بہ پے رواں ہیں
ہر ایک شے کو سجھاتے جاتے ہر ایک شے کو جلاتے جاتے مٹاتے جاتے
ہر ایک شے کو سجھاتے جاتے کہ کچھ نہیں ہست سے بھی حاصل

ہوا کے جھونکے ادھر جو آئیں تو ان سے کہنا
یہ سب معابد یہ شہر گاؤں
فسانۂ زیست کے نشاں ہیں
مگر ہر اک در پہ جا کے دیکھا ہر ایک دیوار روند ڈالی ہر ایک روزن کو دل سمجھ کر
یہ بھید جانا
گزرتے لمحوں کے آتشیں پاؤں ہر جگہ پے بہ پے رواں ہیں
کہیں مٹاتے کہیں مٹانے کے واسطے نقش نو بناتے
حیات رفتہ حیات آئندہ سے ملے گی یہ کون جانے
ہوا کے جھونکے ادھر جو آئیں تو ان سے کہنا
ہر جگہ دام دوریوں کا بچھا ہوا ہے
ہر اک جگہ وقت ایک عفریت کی طرح یوں کھڑا ہوا ہے
کہ جیسے وہ کائنات کا عکس بے کراں ہو
کبھی فریب خیال بن کر کبھی کبھی بھول کر شعور جمال بن کر
شکار کی ناتواں نظر کو سجھا رہا ہے
ہر ایک شے سے مرا نشان عدم عیاں ہے
عدم بھی دریوزہ گر ہے میرا مرے ہی بل پر رواں دواں ہے

ہوا کے جھونکے ادھر جو آئیں تو ان سے کہنا
فسانۂ زیست کا جھلستا ہوا اجالا بھی مٹ چکا ہے
مگر ہو مٹ کر کوئی اندھیرا نہیں بنا ہے
کہ اس جگہ تو کوئی اندھیرا نہیں اجالا نہیں یہاں کوئی شے نہیں ہے


This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.