عرصۂ ہر دو جہاں عالم تنہائی ہے

عرصۂ ہر دو جہاں عالم تنہائی ہے
by کیفی حیدرآبادی

عرصۂ ہر دو جہاں عالم تنہائی ہے
کہ جدھر دیکھیے تو ہے تری یکتائی ہے

بے نیازی ہے خود آرائی ہے خود رائی ہے
آپ کی جانے بلا کون تمنائی ہے

پاتے ہیں لطف حیات ابدی تیرے شہید
ذبح کرنا ترا اعجاز مسیحائی ہے

تم کو کیفیؔ سے تعلق تو نہ ہوگا لیکن
جان پہچان ملاقات شناسائی ہے

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse