عریاں ہی رہے لاش غریب الوطنی میں
عریاں ہی رہے لاش غریب الوطنی میں
دھبے مرے عصیاں کے نہ آئیں کفنی میں
اقرار پہ بھی میری طبیعت نہیں جمتی
وہ لطف ملا ہے تری پیماں شکنی میں
دل ٹوٹ کے جڑتا نہیں شیشہ ہو تو جڑ جائے
ہے فرق یہی سوختنی ساختنی میں
حسرت ہے مری آپ کی تصویر نہیں ہے
اک چیز ہے رکھ لی ہے چھپا کر کفنی میں
ہم بھی کبھی پریوں میں رہا کرتے تھے شاعرؔ
کیا دیکھتے ہو ہم کو غریب الوطنی میں
This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author. |