عشق اب میری جان ہے گویا

عشق اب میری جان ہے گویا
by جلیل مانکپوری

عشق اب میری جان ہے گویا
جان اب میہمان ہے گویا

سوز دل کہہ رہی ہے محفل میں
شمع میری زبان ہے گویا

جس کو دیکھو وہی ہے گرم تلاش
کہیں اس کا نشان ہے گویا

ہے قیامت اٹھان ظالم کی
وہ ابھی سے جوان ہے گویا

چھینے لیتی ہے دل تری تصویر
وہ ادا ہے کہ جان ہے گویا

ایک دل اس میں لاکھ زخم فراق
ٹوٹا پھوٹا مکان ہے گویا

مانگے جائیں گے تجھ کو ہم تجھ سے
منہ میں جب تک زبان ہے گویا

جی بہلنے کو لوگ سنتے ہیں
درد دل داستان ہے گویا

آدمی وقف کار دنیا ہے
میہماں میزبان ہے گویا

تیری کس بات کا بھروسہ ہو
تیری ہر بات جان ہے گویا

دل میں کیسے وہ بے تکلف ہیں
ان کا اپنا مکان ہے گویا

ہائے اس عالم آشنا کی نظر
ہر نظر میں جہان ہے گویا

اچھے اچھوں کو پھانس رکھا ہے
زال دنیا جوان ہے گویا

چپ رہوں میں تو سب کھٹکتے ہیں
بے زبانی زبان ہے گویا

بے وفائی پہ مرتے ہیں معشوق
دل ربائی کی شان ہے گویا

کوئی اس پر نگاہ کیا ڈالے
تمکنت پاسبان ہے گویا

تیری صورت تو کہتی ہے قاتل
خود ترا امتحان ہے گویا

خوبرویان ماہ پیکر سے
یہ زمیں آسمان ہے گویا

آج ہے دید کی اجازت عام
موت کا امتحان ہے گویا

وار پر وار کرتے جاتے ہیں
کچھ ابھی مجھ میں جان ہے گویا

اس سخن کا جلیلؔ کیا کہنا
مصحفیؔ کی زبان ہے گویا

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse