عشق الزام بھی تو ہوتا ہے

عشق الزام بھی تو ہوتا ہے
by صفی اورنگ آبادی

عشق الزام بھی تو ہوتا ہے
یہ برا کام بھی تو ہوتا ہے

دوستی کچھ مجھی کو تم سے نہیں
یہ مرض عام بھی تو ہوتا ہے

نہیں تکلیف ہی محبت میں
اس میں آرام بھی تو ہوتا ہے

وعدہ کرنے میں پھر تأمل کیا
ہاں تمہیں کام بھی تو ہوتا ہے

رات دن درد ہی نہیں رہتا
دل کو آرام بھی تو ہوتا ہے

نشۂ حسن اور پھر کب تک
بادۂ خام بھی تو ہوتا ہے

نام پر تیرے کیوں نہ آتا پیار
پیار کا نام بھی تو ہوتا ہے

کیا تعجب جو ہو وصال میں وصل
کام میں کام بھی تو ہوتا ہے

اے صفیؔ عاشقی کی یہ تعریف
اور انجام بھی تو ہوتا ہے

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse