عشق تاثیر سے نومید نہیں

عشق تاثیر سے نومید نہیں
by مرزا غالب

عشق تاثیر سے نومید نہیں
جاں سپاری شجرِ بید نہیں

سلطنت دست بَدَست آئی ہے
جامِ مے خاتمِ جمشید نہیں

ہے تجلی تری سامانِ وجود
ذرّہ بے پرتوِ خورشید نہیں

رازِ معشوق نہ رسوا ہو جائے
ورنہ مر جانے میں کچھ بھید نہیں

گردشِ رنگِ طرب سے ڈر ہے
غمِ محرومیِ جاوید نہیں

کہتے ہیں جیتے ہیں اُمّید پہ لوگ
ہم کو جینے کی بھی امّید نہیں

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse