عشق حقیقی

عشق حقیقی (1950)
by سعادت حسن منٹو
325214عشق حقیقی1950سعادت حسن منٹو

عشق و محبت کے بارے میں اخلاق کا نظریہ وہی تھا جو اکثر عاشقوں اور محبت کرنے والوں کا ہوتا ہے۔ وہ رانجھے پیر کا چیلا تھا۔ عشق میں مر جانا اس کے نزدیک ایک عظیم الشان موت مرنا تھا۔

اخلاق تیس برس کا ہوگیا۔ مگر باوجود کوششوں کے اس کو کسی سے عشق نہ ہوا لیکن ایک دن انگرڈ برگ مین کی پکچر’’فور ہوم دی بل ٹولز‘‘ کا میٹنی شو دیکھنے کے دوران میں اس نے محسوس کیا کہ اس کا دل اس برقع پوش لڑکی سے وابستہ ہوگیا ہےجو اس کے ساتھ والی سیٹ پر بیٹھی تھی اور سارا وقت اپنی ٹانگ ہلاتی رہی تھی۔

پردے پر جب سائے کم اور روشنی زیادہ ہوئی تو اخلاق نے اس لڑکی کو ایک نظر دیکھا۔ اس کے ماتھے پر پسینے کے ننھے ننھے قطرے تھے۔ ناک کی پھننگ پر چند بوندیں تھیں ۔جب اخلاق نے اس کی طرف دیکھا تو اس کی ٹانگ ہلنا بند ہوگئی۔ ایک ادا کے ساتھ اس نے اپنے سیاہ برقعے کی جالی سے اپنا چہرہ ڈھانپ لیا۔ یہ حرکت کچھ ایسی تھی کہ اخلاق کو بے اختیار ہنسی آگئی۔

اس لڑکی نے اپنی سہیلی کے کان میں کچھ کہا۔ دونوں ہولے ہولے ہنسیں۔ اس کے بعد اس لڑکی نے نقاب اپنے چہرے سے ہٹالیا۔ اخلاق کی طرف تیکھی تیکھی نظروں سے دیکھا اور ٹانگ ہلا کر فلم دیکھنے میں مشغول ہوگئی۔

اخلاق سگریٹ پی رہا تھا۔ انگرڈبرگ مین اس کی محبوب ایکٹرس تھی۔’’فور ہوم دی بل ٹولز‘‘ میں اس کے بال کٹے ہوئے تھے۔ فلم کے آغاز میں جب اخلاق نے اسے دیکھا تو وہ بہت ہی پیاری معلوم ہوئی۔ لیکن ساتھ والی سیٹ پر بیٹھی ہوئی لڑکی دیکھنے کے بعد وہ انگرڈ برگ مین کو بھول گیا۔ یوں تو قریب قریب سارا فلم اس کی نگاہوں کے سامنے چلا مگر اس نے بہت ہی کم دیکھا۔سارا وقت وہ لڑکی اس کے دل و دماغ پر چھائی رہی۔

اخلاق سگریٹ پر سگریٹ پیتا رہا۔ ایک مرتبہ اس نے راکھ جھاڑی تو اس کا سگریٹ انگلیوں سے نکل کر اس لڑکی کی گود میں جا پڑا۔ لڑکی فلم دیکھنے میں مشغول تھی اس لیے اس کو سگریٹ گرنے کا کچھ پتہ نہ تھا۔ اخلاق بہت گھبرایا۔ اسی گھبراہٹ میں اس نے ہاتھ بڑھا کرسگریٹ اس کے برقعے پر سے اٹھایا اور فرش پرپھینک دیا۔ لڑکی ہڑبڑا کر اٹھ کھڑی ہوئی۔ اخلاق نے فوراً کہا،’’معافی چاہتا ہوں آپ پرسگریٹ گر گیا تھا۔‘‘

لڑکی نے تیکھی تیکھی نظروں سے اخلاق کی طرف دیکھا اور بیٹھ گئی۔ بیٹھ کر اس نے اپنی سہیلی سے سرگوشی میں کچھ کہا۔ دونوں ہولے ہولے ہنسیں اورفلم دیکھنے میں مشغول ہوگئیں۔فلم کے اختتام پر جب قائداعظم کی تصویر نمودار ہوئی تو اخلاق اٹھا۔ خدا معلوم کیا ہوا کہ اس کا پاؤں لڑکی کے پاؤں کے ساتھ ٹکرایا۔ اخلاق ایک بار پھر سرتا پا معذرت بن گیا،’’معافی چاہتا ہوں۔۔۔جانے آج کیا ہوگیا ہے۔‘‘

دونوں سہیلیاں ہولے ہولے ہنسیں۔ جب بھیڑ کے ساتھ باہر نکلیں تو اخلاق ان کے پیچھے پیچھے ہولیا۔ وہ لڑکی جس سے اس کو پہلی نظر کا عشق ہوا تھا ،مڑ مڑ کر دیکھتی رہی۔اخلاق نے اس کی پرواہ نہ کی اور ان کے پیچھے پیچھے چلتا رہا۔ اس نے تہیہ کرلیا تھا کہ وہ اس لڑکی کا مکان دیکھ کے رہے گا۔مال روڈکے فٹ پاتھ پر وائی ایم سی اے کے سامنے اس لڑکی نے مڑ کر اخلاق کی طرف دیکھا اور اپنی سہیلی کا ہاتھ پکڑ کررک گئی۔ اخلاق نے آگے نکلنا چاہا تو وہ لڑکی اس سے مخاطب ہوئی،’’ آپ ہمارے پیچھے پیچھے کیوں آرہے ہیں؟‘‘

اخلاق نے ایک لحظہ سوچ کر جواب دیا،’’آپ میرے آگے آگے کیوں جارہی ہیں؟‘‘

لڑکی کھکھلا کر ہنس پڑی۔ اس کے بعد اس نے اپنی سہیلی سے کچھ کہا۔ پھر دونوں چل پڑیں۔ بس اسٹینڈ کے پاس اس لڑکی نے جب مڑ کر دیکھا تو اخلاق نے کہا،’’آپ پیچھے آجائیے۔ میں آگے بڑھ جاتا ہوں۔‘‘ لڑکی نے منہ موڑ لیا۔

انار کلی کا موڑ آیا تو دونوں سہیلیاں ٹھہر گئیں۔ اخلاق پاس سے گزرنے لگا تو اس لڑکی نے اس سے کہا،’’آپ ہمارے پیچھے نہ آئیے۔ یہ بہت بری بات ہے۔‘‘

لہجے میں بہت سنجیدگی تھی۔ اخلاق نے ’’بہت بہتر‘‘ کہا اور واپس چل دیا۔ اس نے مڑ کر بھی ان کو نہ دیکھا۔ لیکن دل میں اس کو افسوس تھا کہ وہ کیوں اس کے پیچھے نہ گیا۔ اتنی دیرکے بعد اس کو اتنی شدت سے محسوس ہوا تھا کہ اس کو کسی سے محبت ہوئی ہے۔ لیکن اس نے موقعہ ہاتھ سے جانے دیا۔ اب خدا معلوم پھر اس لڑکی سے ملاقات ہو یا نہ ہو۔جب وائی ایم سی اے کے پاس پہنچا تو ر ک کراس نے انار کلی کے موڑ کی طرف دیکھامگر اب وہاں کیا تھا۔ وہ تو اسی وقت انارکلی کی طرف چلی گئی تھیں۔

لڑکی کے نقش بڑے پتلے پتلے تھے۔ باریک ناک ،چھوٹی سی ٹھوڑی، پھول کی پتیوں جیسے ہونٹ ،جب پردے پر سائے کم اور روشنی زیادہ ہوتی تھی تو اس نے اس کے بالائی ہونٹ پر ایک تل دیکھا تھا جو بے حد پیارا لگتا تھا۔ اخلاق نے سوچا تھا کہ اگر یہ تل نہ ہوتا تو شاید وہ لڑکی نامکمل رہتی۔ اس کا وہاں پر ہونا اشد ضروری تھا۔

چھوٹے چھوٹے قدم تھے جن میں کنوار پن تھا۔ چونکہ اس کو معلوم تھا کہ ایک مرد میرے پیچھے پیچھے آرہا ہے۔ اس لیے ان کے ان چھوٹے چھوٹے قدموں میں ایک بڑی پیاری لڑکھڑاہٹ سی پیدا ہوگئی تھی۔ اس کا مڑ مڑ کر تو دیکھنا غضب تھا۔ گردن کو ایک خفیف سا جھٹکا دے کر وہ پیچھے اخلاق کی طرف دیکھتی اور تیزی سے منہ موڑ لیتی۔

دوسرے روز وہ انگرڈبرگ مین کا فلم پھر دیکھنے گیا۔ شو شروع ہوچکا تھا۔ والٹ ڈزنی کا کارٹون چل رہا تھا کہ وہ اندر ہال میں داخل ہوا۔ ہاتھ کو ہاتھ سجھائی نہیں دیتا تھا۔گیٹ کیپرکی بیٹری کی اندھی روشنی کے سہارے اس نے ٹٹول ٹٹول کر ایک خالی سیٹ تلاش کی اور اس پر بیٹھ گیا۔ڈزنی کا کارٹون بہت مزاحیہ تھا۔ ادھر ادھر کئی تماشائی ہنس رہے تھے۔ دفعتاً بہت ہی قریب سے اخلاق کو ایسی ہنسی سنائی دی جس کو وہ پہچانتا تھا۔ مڑ کر اس نے پیچھے دیکھا تو وہی لڑکی بیٹھی تھی۔اخلاق کا دل دھک دھک کرنے لگا۔ لڑکی کے ساتھ ایک نوجوان لڑکا بیٹھا تھا۔ شکل و صورت کے اعتبار سے وہ اس کا بھائی لگتا تھا۔ اس کی موجودگی میں وہ کس طرح باربار مڑکر دیکھ سکتا تھا۔

انٹرول ہوگیا۔ اخلاق کوشش کے باوجود فلم اچھی طرح نہ دیکھ سکا۔ روشنی ہوئی تو وہ اٹھا۔ لڑکی کے چہرے پر نقاب تھا۔ مگر اس مہین پردے کے پیچھے اس کی آنکھیں اخلاق کو نظر آئیں جن میں مسکراہٹ کی چمک تھی۔لڑکی کے بھائی نے سگریٹ نکال کر سلگایا۔ اخلاق نے اپنی جیب میں ہاتھ ڈالا اور اس سے مخاطب ہوا،’’ذرا ماچس عنایت فرمائیے۔‘‘

لڑکی کے بھائی نے اس کوماچس دے دی۔ اخلاق نے اپنا سگریٹ سلگایا اور ماچس اس کو واپس دے دی،’’ شکریہ!‘‘

لڑکی کی ٹانگ ہل رہی تھی۔ اخلاق اپنی سیٹ پر بیٹھ گیا۔ فلم کا بقایا حصہ شروع ہوا۔ ایک دو مرتبہ اس نے مڑ کر لڑکی کی طرف دیکھا۔ اس سے زیادہ وہ کچھ نہ کرسکا۔فلم ختم ہوا۔ لوگ باہر نکلنے شروع ہوئے۔ لڑکی اور اس کا بھائی ساتھ تھے۔ اخلاق ان سے ہٹ کر پیچھے پیچھے چلنے لگا۔

اسٹینڈرڈ کے پاس بھائی نے اپنی بہن سے کچھ کہا۔ ایک ٹانگے والے کو بلایا لڑکی اس میں بیٹھ گئی۔ لڑکا اسٹینڈرڈ میں چلا گیا۔ لڑکی نے نقاب میں سے اخلاق کی طرف دیکھا۔ اس کا دل دھک دھک کرنے لگا۔ ٹانگہ چل پڑا۔

اسٹینڈرڈ کے باہر اس کے تین چار دوست کھڑے تھے۔ ان میں سے ایک کی سائیکل اس نے جلدی جلدی پکڑی اور ٹانگے کے تعاقب میں روانہ ہوگیا۔

یہ تعاقب بڑا دلچسپ رہا۔ زور کی ہوا چل رہی تھی،لڑکی کے چہرے پر سے نقاب اٹھ اٹھ جاتی۔ سیاہ جارجٹ کا پردہ پھڑپھڑا کر اس کے سفید چہرے کی جھلکیاں دکھاتا تھا۔ کانوں میں سونے کے بڑے بڑے جھومر تھے۔ پتلے پتلے ہونٹوں پر سیاہی مائل سرخی تھی۔۔۔ اور بالائی ہونٹ پر تل۔۔۔ وہ اشد ضروری تل۔

بڑے زور کا جھونکا آیا تو اخلاق کے سر پر سے ہیٹ اتر گیا اور سڑک پر دوڑنے لگا۔ ایک ٹرک گزر رہا تھا۔ اس کے و زنی پہیے کے نیچے آیا اور وہیں چت ہوگیا۔لڑکی ہنسی، اخلاق مسکرا دیا۔ گردن موڑ کر ہیٹ کی لاش دیکھی جو بہت پیچھے رہ گئی تھی اور لڑکی سے مخاطب ہو کر کہا،’’اس کو تو شہادت کا رتبہ مل گیا۔‘‘لڑکی نے منہ دوسری طرف موڑ لیا۔

اخلاق تھوڑی دیر کے بعد پھر اس سے مخاطب ہوا،’’آپ کو اعتراض ہے تو واپس چلے جاتا ہوں۔‘‘ لڑکی نے اس کی طرف دیکھا مگر کوئی جواب نہ دیا۔

انار کلی کی ایک گلی میں ٹانگہ رکا اور وہ لڑکی اتر کر اخلاق کی طرف بار بار دیکھتی نقاب اٹھا کر ایک مکان میں داخل ہوگئی۔ اخلاق ایک پاؤں سائیکل کے پیڈل پر اور دوسرا پاؤں دکان کے تھڑے پررکھے تھوڑی دیر کھڑا رہا۔ سائیکل چلانے ہی والا تھا کہ اس مکان کی پہلی منزل پر ایک کھڑکی کھلی۔ لڑکی نے جھانک کر اخلاق کو دیکھا۔ مگر فوراً ہی شرما کرپیچھے ہٹ گئی۔ اخلاق تقریباً آدھاگھنٹہ وہاں کھڑا رہا۔ مگر وہ پھر کھڑکی میں نمودار نہ ہوئی۔

دوسرے روز اخلاق صبح سویرے انارکلی کی اس گلی میں پہنچا۔ پندرہ بیس منٹ تک ادھر ادھر گھومتا رہا۔ کھڑکی بند تھی۔ مایوس ہو کر لوٹنے والا تھا کہ ایک فالسے بیچنے والا صدا لگاتا آیا۔ کھڑکی کھلی، لڑکی سر سے ننگی نمودا ہوئی۔ اس نے فالسے والے کو آواز دی۔

’’بھائی فالسے والے ذرا ٹھہرنا!‘‘ پھر اس کی نگاہیں ایک دم اخلاق پر پڑیں۔ چونک کر وہ پیچھے ہٹ گئی۔ فالسے والے نے سر پر سے چھابڑی اتاری اور بیٹھ گیا۔ تھوڑی دیر کے بعد وہ لڑکی سر پر دوپٹہ لیے نیچے آئی۔ اخلاق کو اس نے کنکھیوں سے دیکھا۔ شرمائی اور فالسے لیے بغیر واپس چلی گئی۔اخلاق کو یہ ادا بہت پسند آئی۔ تھوڑا سا ترس بھی آیا۔ فالسے والے نے جب اس کو گھور کے دیکھا تو وہ وہاں سے چل دیا،’’چلو آج اتنا ہی کافی ہے۔‘‘

چند دن ہی میں اخلاق اور اس لڑکی میں اشارے شروع ہوگئے۔ ہر روز صبح نو بجے وہ انار کلی کی اس گلی میں پہنچتا۔ کھڑکی کھلتی وہ سلام کرتا ،وہ جواب دیتی، مسکراتی۔ ہاتھ کے اشاروں سے کچھ باتیں ہوتیں۔ اس کے بعد وہ چلی جاتی۔

ایک روز انگلیاں گھما کر اس نے اخلاق کو بتایا کہ وہ شام کے چھ بجے کے شو سنیما دیکھنے جارہی ہے۔ اخلاق نے اشاروں کے ذریعہ سے پوچھا،’’کون سے سینما ہاؤس میں؟‘‘اس نے جواب میں کچھ اشارے کیےمگر اخلاق نہ سمجھا۔ آخرمیں اس نے اشاروں میں کہا،’’کاغذ پر لکھ کر نیچے پھینک دو۔‘‘

لڑکی کھڑکی سے ہٹ گئی۔ چند لمحات کے بعد اس نے ادھر ادھر دیکھ کرکاغذ کی ایک مڑوری سی نیچے پھینک دی۔ اخلاق نے اسے کھولا۔ لکھا تھا۔

’’پلازا۔۔۔ پروین۔‘‘

شام کو پلازا میں اس کی ملاقات پروین سے ہوئی۔ اس کے ساتھ اس کی سہیلی تھی۔ اخلاق اس کے ساتھ والی سیٹ پر بیٹھ گیا۔ فلم شروع ہوا تو پروین نے نقاب اٹھا لیا۔ اخلاق سارا وقت اس کو دیکھتا رہا۔ اس کا دل دھک دھک کرتا تھا۔ انٹرول سے کچھ پہلے اس نے آہستہ سے اپنا ہاتھ بڑھایا اور اس کے ہاتھ پر رکھ دیا۔ وہ کانپ اٹھی۔ اخلاق نے فوراً ہاتھ اٹھا لیا۔

دراصل وہ اس کو انگوٹھی دینا چاہتا تھا، بلکہ خود پہنانا چاہتا تھا جو اس نے اسی روز خریدی تھی۔ انٹرول ختم ہوا تو اس نے پھر اپنا ہاتھ بڑھایا اور اس کے ہاتھ پررکھ دیا وہ کانپی لیکن اخلاق نے ہاتھ نہ ہٹایا۔ تھوڑی سی دیر کے بعد اس نے انگوٹھی نکالی اور اس کی ایک انگلی میں چڑھا دی۔۔۔ وہ بالکل خاموش رہی۔ اخلاق نے اس کی طرف دیکھا۔ پیشانی اور ناک پر پسینے کے ننھے ننھے قطرے تھرتھرا رہے تھے۔

فلم ختم ہوا تو اخلاق اور پروین کی یہ ملاقات بھی ختم ہوگئی۔ باہر نکل کر کوئی بات نہ ہوسکی۔ دونوں سہیلیاں ٹانگے میں بیٹھیں۔ اخلاق کو دوست مل گئے۔ انھوں نے اسے روک لیا لیکن وہ بہت خوش تھا، اس لیے کہ پروین نے اس کا تحفہ قبول کرلیا تھا۔

دوسرے روز مقررہ اوقات پر جب اخلاق پروین کے گھر کے پاس پہنچا تو کھڑکی کھلی تھی۔ اخلاق نے سلام کیا۔ پروین نے جواب دیا۔ اس کے داہنے ہاتھ کی انگلی میں اس کی پہنائی ہوئی انگوٹھی چمک رہی تھی۔تھوڑی دیر اشارے ہوتے رہے اس کے بعد پروین نے ادھر ادھر دیکھ کر ایک لفافہ نیچے پھینک دیا۔ اخلاق نے اٹھایا۔ کھولا تو اس میں ایک خط تھا۔ انگوٹھی کے شکریے کا۔

گھر پہنچ کر اخلاق نے ایک طویل جواب لکھا۔ اپنا دل نکال کرکاغذوں میں رکھ دیا۔ اس خط کو اس نے پھول دار لفافے میں بند کیا۔ اس پر سینٹ لگایا اور دوسرے روز صبح نو بجے پروین کو دکھا کر نیچے لیٹر بکس میں ڈال دیا۔اب ان میں باقاعدہ خط و کتابت شروع ہوگئی۔ ہر خط عشق و محبت کا ایک دفتر تھا۔ ایک خط اخلاق نے اپنے خون سے لکھا جس میں اس نے قسم کھائی کہ وہ ہمیشہ اپنی محبت میں ثابت قدم رہے گا۔ اس کے جواب میں خونی تحریر ہی آئی۔ پروین نے بھی حلف اٹھایا کہ وہ مر جائے گی لیکن اخلاق کے سوا اور کسی کو شریک حیات نہیں بنائے گی۔

مہینوں گزر گئے۔ اس دوران میں کبھی کبھی کسی سنیما میں دونوں کی ملاقات ہو جاتی تھیں۔ مل کربیٹھنے کا موقعہ انھیں نہیں ملتا تھا۔ پروین پر گھر کی طرف سےبہت کڑی پابندیاں عائد تھیں۔ وہ باہر نکلتی تھی یا تو اپنے بھائی کے ساتھ یا اپنی سہیلی زہرہ کے ساتھ۔ ان دو کے علاوہ اس کو اور کسی کے ساتھ باہر جانے کی اجازت نہیں تھی۔ اخلاق نے اسے کئی مرتبہ لکھا کہ زہرہ کے ساتھ وہ کبھی اسے بارہ دری میں جہانگیر کے مقبرے میں ملے۔ مگر وہ نہ مانی۔ اس کو ڈر تھا کہ کوئی دیکھ لے گا۔

اس اثنا میں اخلاق کے والدین نے اس کی شادی کی بات چیت شروع کردی۔ اخلاق ٹالتا رہا، جب انھوں نے تنگ آکر ایک جگہ بات کردی تو اخلاق بگڑ گیا ،بہت ہنگامہ ہوا۔یہاں تک کہ اخلاق کو گھر سے نکل کر ایک رات اسلامیہ کالج کی گراؤنڈ میں سونا پڑا۔ ادھر پروین روتی رہی۔ کھانے کو ہاتھ تک نہ لگایا۔

اخلاق دھن کا بہت پکا تھا۔ ضدی بھی پرلے درجے کا تھا۔ گھر سے باہر قدم نکالا تو پھر ادھر رخ تک نہ کیا۔ اس کے والد نے اس کو بہت سمجھایا مگر وہ نہ مانا۔ ایک دفتر میں سو روپے ماہوار پر نوکری کرلی اور ایک چھوٹا سا مکان کرایہ پر لے کررہنے لگا۔ جس میں نل تھا نہ بجلی۔

ادھر پروین اخلاق کی تکلیفوں کے دکھ میں گُھل رہی تھی۔ گھر میں جب اچانک اس کی شادی کی بات چیت شروع ہوئی تو اس پربجلی سی گری۔ اس نے اخلاق کو لکھا۔ وہ بہت پریشان ہوا۔ لیکن پروین کو اس نے تسلی دی کہ وہ گھبرائے نہیں۔ ثابت قدم رہے۔ عشق ان کا امتحان لے رہا ہے۔

بارہ دن گزر گئے۔ اخلاق کئی بار گیا۔ مگر پروین کھڑکی میں نظر نہ آئی۔ وہ صبر و قرار کھو بیٹھا،نیند اس کی غائب ہوگئی۔ اس نے دفتر جانا چھوڑ دیا۔ زیادہ ناغے ہوئے تو اس کو ملازمت سے برطرف کردیا گیا۔ اس کو کچھ ہوش نہیں تھا۔ برطرفی کا نوٹس ملا تو وہ سیدھا پروین کے مکان کی طرف چل پڑا۔ پندرہ دنوں کے طویل عرصے کے بعد اسے پروین نظر آئی وہ بھی ایک لحظے کے لیے۔ جلدی سے لفافہ پھینک کر وہ چلی گئی۔

خط بہت طویل تھا۔ پروین کی غیر حاضری کا باعث یہ تھا کہ اس کا باپ اس کو ساتھ گوجرانوالہ لے گیا تھا جہاں اس کی بڑی بہن رہتی تھی۔ پندرہ دن وہ خون کے آنسو روتی رہی۔ اس کا جہیز تیار کیا جارہا تھا لیکن اس کو محسوس ہوتا تھا کہ اس کے لیے رنگ برنگے کفن بن رہے ہیں۔ خط کے آخر میں لکھا۔ تاریخ مقرر ہو چکی ہے۔۔۔ میری موت کی تاریخ مقرر ہو چکی ہے۔ میں مرجاؤں گی۔۔۔ میں ضرور کچھ کھا کے مر جاؤں گی۔ اس کے سوا اور کوئی راستہ مجھے دکھائی نہیں دیتا۔۔۔ نہیں نہیں ایک اور راستہ بھی ہے۔۔۔ لیکن میں کیا اتنی ہمت کرسکوں گی۔ تم بھی اتنی ہمت کرسکو گے۔۔۔ میں تمہارے پاس چلی آؤں گی۔۔۔ مجھے تمہارے پاس آنا ہی پڑے گا۔ تم نے میرے لیے گھر بار چھوڑا۔ میں تمہارے لیے یہ گھر نہیں چھوڑ سکتی جہاں میری موت کے سامان ہورہے ہیں۔۔۔ لیکن میں بیوی بن کر تمہارے ساتھ رہنا چاہتی ہوں۔ تم شادی کا بندوبست کرلو۔ میں صرف تین کپڑوں میں آؤں گی۔ زیور وغیرہ سب اتار کر یہاں پھینک دوں گی۔۔۔جواب جلدی دو، ہمیشہ تمہاری۔ پروین۔

اخلاق نے کچھ نہ سوچا، فوراً اس کو لکھا،’’میری باہیں تمہیں ا پنے آغوش میں لینے کے لیے تڑپ رہی ہیں۔ میں تمہاری عزت و عصمت پر کوئی حرف نہیں آنے دوں گا۔ تم میری رفیقہ حیات بن کے رہو گی۔ زندگی بھر میں تمہیں خوش رکھوں گا۔‘‘ایک دو خط اور لکھے گئے اس کے بعد طے کیا کہ پروین بدھ کو صبح سویرے گھر سے سے نکلے گی۔ اخلاق ٹانگہ لے کرگلی کے نکڑ پر اس کا انتظار کرے۔

بدھ کو منہ اندھیرے اخلاق ٹانگے میں وہاں پہنچ کر پروین کا انتظار کرنے لگا۔ پندرہ بیس منٹ گزر گئے۔ اخلاق کا اضطراب بڑھ گیا۔ لیکن وہ آگئی۔ چھوٹے چھوٹے قدم اٹھاتی وہ گلی میں نمودار ہوئی۔ چال میں لڑکھڑاہٹ تھی۔ جب وہ ٹانگے میں اخلاق کے ساتھ بیٹھی تو سرتا پا کانپ رہی تھی۔ اخلاق خود بھی کانپنے لگا۔گھر پہنچے تو اخلاق نے بڑے پیارسے اس کے برقعے کی نقاب اٹھائی اور کہا،’’میری دولہن کب تک مجھ سے پردہ کرے گی۔‘‘

پروین نے شرما کر آنکھیں جھکا لیں، اس کا رنگ زرد تھا ،جسم ابھی تک کانپ رہا تھا۔ اخلاق نے بالائی ہونٹ کے تل کی طرف دیکھا تو اس کے ہونٹوں میں ایک بوسہ تڑپنے لگا۔ اس کے چہرے کو اپنے ہاتھوں میں تھام کر اس نے تل والی جگہ کو چوما۔ پروین نےنہ نہ کی، اس کے ہونٹ کھلے۔ دانتوں میں گوشت خورہ تھا۔ مسوڑھے گہرے نیلے رنگ کے تھے۔ گلے ہوئے۔ سڑاند کا ایک بھبکا اخلاق کی ناک میں گھس گیا۔ ایک دھکا سا اس کو لگا۔ ایک اور بھبکا پروین کے منہ سے نکلا تو وہ ایک دم پیچھے ہٹ گیا۔

پروین نے حیا آلود آواز میں کہا،’’شادی سے پہلے آپ کو ایسی باتوں کا حق نہیں پہنچتا۔‘‘

یہ کہتے ہوئے اس کے گلے ہوئے مسوڑھے نمایاں ہوئے۔ اخلاق کے ہوش و حواس غائب تھے، دماغ سن ہوگیاتھا۔ دیر تک وہ دونوں پاس بیٹھے رہے۔ اخلاق کو کوئی بات نہیں سوجھتی تھی۔ پروین کی آنکھیں جھکی ہوئی تھیں۔ جب اس نے انگلی کا ناخن کاٹنے کے لیے ہونٹ کھولے تو پھر ان گلے ہوئے مسوڑوں کی نمائش ہوئی۔ بو کا ایک بھبکا نکلا۔ اخلاق کو متلی آنے لگی۔ اٹھا اور ’’ابھی آیا‘‘ کہہ کر باہر نکل گیا۔ ایک تھڑے پر بیٹھ کر اس نے بہت دیر سوچا۔ جب کچھ سمجھ میں نہ آیا تو لائل پور روانہ ہوگیا۔ جہاں اس کا ایک دوست رہتا تھا۔ اخلاق نے سارا واقعہ سنایا تو اس نے بہت لعن طعن کی اور اس سے کہا،’’فوراً واپس چاؤ۔ کہیں بے چاری خود کشی نہ کرلے۔‘‘

اخلاق رات کو واپس لاہور آیا۔ گھرمیں داخل ہواتو پروین موجود نہیں تھی۔۔۔ پلنگ پر تکیہ پڑا تھا۔ اس پر دو گول گول نشان تھے۔ گیلے!

اس کے بعد اخلاق کو پروین کہیں نظر نہ آئی۔


This work is now in the public domain in Pakistan because it originates from Pakistan and its term of copyright has expired. According to Pakistani copyright laws, all photographs enter the public domain fifty years after they were published, and all non-photographic works enter the public domain fifty years after the death of the creator.