عشق ستم پرست کیا حسن ستم شعار کیا
عشق ستم پرست کیا حسن ستم شعار کیا
ہم بھی انہیں کے ہیں تو پھر اپنا بھی اعتبار کیا
عشرت زیست کی قسم عشرت مستعار کیا
غم بھی جو مستقل نہ ہو غم کا بھی اعتبار کیا
مٹتی ہوئی حیات کیا لٹتی ہوئی بہار کیا
یعنی قریب صبح غم شمع کا اعتبار کیا
یاد سے ان کی کام رکھ درد کا اہتمام رکھ
موت بھی آ ہی جائے گی موت کا انتظار کیا
بڑھتی رہیں گی تا بہ کے اہل جنوں کی وحشتیں
چھپتے رہیں گے وہ پس آئینۂ بہار کیا
قیمت کائنات کیا ان کی نگاہ ناز میں
فتنۂ حشر کے لئے فتنۂ روزگار کیا
راہ دراز جبر ہے کہتے ہیں جس کو زندگی
راہ دراز جبر میں منزل اختیار کیا
اتنا بھی انتظار دوست ہائے یہ اعتبار دوست
اے دل بیقرار دوست دوست پہ اختیار کیا
عشق سے سر گراں نہ ہو حسن سے بد گماں نہ ہو
جس کے لئے خزاں نہ ہو اس کے لئے بہار کیا
یاد میں تیری پا لیا میں نے سکون زندگی
اب تری یاد میں مجھے چین کیا قرار کیا
میری نظر سے دیکھیے اپنا جمال بے مثال
چشم بہار ساز میں آئینۂ بہار کیا
میری وفا وفا نہیں ان کی جفا جفا نہیں
ہائے اسی کا نام ہے عالم اعتبار کیا
باسطؔ فگار کی یاد بھی کیا نہ آئے گی
اب نہ سنیں گے ہم وطن نالۂ بے قرار کیا
This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author. |