عشق میں تیرے کوہ غم سر پہ لیا جو ہو سو ہو

عشق میں تیرے کوہ غم سر پہ لیا جو ہو سو ہو
by شاہ نیاز احمد

عشق میں تیرے کوہ غم سر پہ لیا جو ہو سو ہو
عیش‌ و نشاط زندگی چھوڑ دیا جو ہو سو ہو

عقل کے مدرسے سے ہو عشق کے مے کدہ میں آ
جام فنا و بے خودی اب تو پیا جو ہو سو ہو

لاگ کی آگ لگ اٹھی پنبہ طرح سا جل گیا
رخت و جود جان و تن کچھ نہ بچا جو ہو سو ہو

ہجر کی سب مصیبتیں عرض کیں اس کے روبرو
ناز و ادا سے مسکرا کہنے لگا جو ہو سو ہو

دنیا کے نیک و بد سے کام ہم کو نیازؔ کچھ نہیں
آپ سے جو گزر گیا پھر اسے کیا جو ہو سو ہو

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse