عشق کی جو لگن نہیں دیکھا
عشق کی جو لگن نہیں دیکھا
وو برہ کی اگن نہیں دیکھا
قدر مج اشک کی وو کیا جانے
جس نے در عدن نہیں دیکھا
تج گلی میں جو کوئی کیا مسکن
پھر کر اس نے وطن نہیں دیکھا
آرزو ہے کہ زلف کوں کھولے
میں نے کالی رین نہیں دیکھا
لب رنگیں دکھا اے معدن حسن
میں عقیق یمن نہیں دیکھا
ٹک زمیں پر قدم رکھو ساجن
آج نقش چرن نہیں دیکھا
دل عبث تشنہ لب ہے کوثر کا
پیو کا چاہ ذقن نہیں دیکھا
غنچۂ گل کوں دیکھ گلشن میں
گر توں پیو کا دہن نہیں دیکھا
تجھ مثل اے سراجؔ بعد ولیؔ
کوئی صاحب سخن نہیں دیکھا
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |