عشق کی میرے جو شہرت ہو گئی
عشق کی میرے جو شہرت ہو گئی
یار سے مجھ کو ندامت ہو گئی
خاک عرض مدعا اس سے کروں
جس کو باتوں میں کدورت ہو گئی
یاں سے جانے کو ہیں وہ آچک کہیں
کیا بلا اے ابر رحمت ہو گئی
اب ستم اغیار پر کرنے لگے
میرے مر جانے سے عبرت ہو گئی
جلوۂ معنی نظر آنے لگا
پیتے پیتے مے یہ صورت ہو گئی
ان کی باتیں اس نے بھی چھپ کر سنیں
آج ناصح کو نصیحت ہو گئی
منع وصل غیر پر ہنس کر کہا
بارے اب تم کو بھی غیرت ہو گئی
بوئے گل اس گل کی بو کے روبرو
فی الحقیقت بے حقیقت ہو گئی
بس نہ فرماتے پھرو یہ شیفتہؔ
گو انہیں تم سے محبت ہو گئی
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |