عشق کے اقلیم میں چال و چلن کچھ اور ہے

عشق کے اقلیم میں چال و چلن کچھ اور ہے (1866)
by شاہ آثم
304440عشق کے اقلیم میں چال و چلن کچھ اور ہے1866شاہ آثم

عشق کے اقلیم میں چال و چلن کچھ اور ہے
ہے نرالا ڈھنگ واں کا اور عجائب طور ہے

خون دل پیتی ہیں واں اور کھاتی ہیں لخت جگر
لطف کے بدلے اٹھانے کو جفا و جور ہے

ان کی گلیوں میں نہیں ہوتا گزر ہی عقل کا
ہے جنوں کا بند و بست اور عاشقی کا دور ہے

زندگی اور مرگ شادی اور غم اور نیک و بد
ایک ساں ہیں سب وہاں لیکن مقام غور ہے

لا مکاں ہے واسطے ان کی مقام بود و باش
گو بظاہر کہنے کو کلکتہ اور لاہور ہے

آہ و نالہ کی چلا کرتی ہیں واں تیر و سنان
جو کہ جاتا ہے وہاں رہتا وہیں وہ ٹھور ہے

ابتدا میں جیتے جی مر جانا پڑتا ہے وہاں
پر جو مر جاتا ہے واں جیتا وہیں فی الفور ہے

ہوں میں جان و دل سے آثمؔ شاہ خادم پر فدا
عشق کے کشور میں جس کی شان و شوکت اور ہے


This work was published before January 1, 1929 and is anonymous or pseudonymous due to unknown authorship. It is in the public domain in the United States as well as countries and areas where the copyright terms of anonymous or pseudonymous works are 100 years or less since publication.