عصمت کا ہے لحاظ نہ پروا حیا کی ہے

عصمت کا ہے لحاظ نہ پروا حیا کی ہے
by جلیل مانکپوری

عصمت کا ہے لحاظ نہ پروا حیا کی ہے
یہ سن غضب کا ہے یہ جوانی بلا کی ہے

سچ پوچھیے تو نالۂ بلبل ہے بے خطا
پھولوں میں ساری آگ لگائی صبا کی ہے

دل ہے عجیب گل چمن روزگار میں
رنگت تو پھول کی ہے مگر بو وفا کی ہے

خلوت میں کیوں یہ ساتھ ہیں سب کو الگ کرو
شوخی کا ہے نہ کام نہ حاجت حیا کی ہے

وہ ہاتھ ان کے چومتی ہے میں ہوں پائمال
یہ ہیں مرے نصیب وہ قسمت حنا کی ہے

انجام کیا ہو داغ محبت کا دیکھیے
سینے میں ابتدا سے جلن انتہا کی ہے

موسم یہی تو پینے پلانے کا ہے جلیل
مے خوار باغ باغ ہیں آمد گھٹا کی ہے

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse