عقل سے حاصل ہوئی کیا کیا پشیمانی مجھے
عقل سے حاصل ہوئی کیا کیا پشیمانی مجھے
عشق جب دینے لگا تعلیم نادانی مجھے
رنج دے گی باغ رضواں کی تن آسانی مجھے
یاد آئے گا ترا لطف ستم رانی مجھے
میری جانب ہے مخاطب خاص کر وہ چشم ناز
اب تو کرنی ہی پڑے گی دل کی قربانی مجھے
دیکھ لے اب کہیں آ کر جو وہ غفلت شعار
کس قدر ہو جائے مر جانے میں آسانی مجھے
بے نقاب آنے کو ہیں مقتل میں وہ بے شک مگر
دیکھنے کاہے کو دے گی میری حیرانی مجھے
سینکڑوں آزادیاں اس قید پر حسرتؔ نثار
جس کے باعث کہتے ہیں سب ان کا زندانی مجھے
This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author. |