علمیت اور ذکاوت کے مقابلے

علمیت اور ذکاوت کے مقابلے
by محمد حسین آزاد
319406علمیت اور ذکاوت کے مقابلےمحمد حسین آزاد

تمہید

جو لوگ علم و کمال کی مسندیں بچھاکر بیٹھے ہیں ان کی مختلف قسمیں ہیں۔ اول وہ اشخاص ہیں کہ جس طرح علم کتابی اور درس و تدریس میں طاق ہیں، اسی طرح حسن تقریر اور شوخی طبع میں براق ہیں۔ دوسرے وہ کہ ایک دفعہ کتابوں پرعبور کر گزرے ہیں، مگر پھر خالی ہڈیاں سمجھ کران کے درپے نہ ہوئے۔ ہاں ایجاد و اختراع پر مرتے ہیں۔ کبھی تقریر کرتے ہیں، کبھی تحریر کرتے ہیں، مگر اپنے اپنے موقع پر یہ عالم ہوتا ہے کہ قلم سے موتی برستے ہیں اورمنہ سے پھول جھڑتے ہیں۔ تیسرے ایسے بھی ہیں کہ پیٹ کی الماری میں جہان کی کتابیں بھرے بیٹھے ہیں، لیکن تقریر کے میدان اور ایجاد کے موقع پر دیکھو تو فقط مٹی کا ڈھیر ہیں۔ تعجب یہ ہے کہ آخر کے دونوں کمال ایک دوسرے پرحرف رکھتے ہیں، بلکہ حریف کو خاطر میں نہیں لاتے۔ ان دونوں کی ہمیشہ چوٹیں چلتی رہتی ہیں، اور مناظرے اور مباحثے جو آئے دن جاری رہتے ہیں ان میں مختلف منزلیں پیش آتی ہیں، جن کے اتار چڑھاؤ سے اور اپنی غلطیوں کے سبب سے بار بار رفتار کے ڈھنگ بدلنے پڑتے ہیں۔ تعجب یہ ہے کہ دیکھنے والوں کی طبیعتیں بھی مختلف ہیں۔ اسی واسطے دونوں کے طرفداروں سے دوجتھے ہوجاتے ہیں اور ان کے مباحثوں اور مقابلوں میں عجیب عجیب لطف دیکھنے میں آتے ہیں، جن کے نشیب و فراز کوغور سے دیکھنا اقلیم علم کے سیاحوں کے لئے ایک عجیب تماشا ہوتا ہے۔ یہ ایسا ہے جیسے تمہیں کسی گلزار ملک کی سیاحی کا شوق پیدا ہو اور ادھر کے کسی مسافر کا ایک سفرنامہ مل جائے، یا اس سر زمین کا ایک نقشہ ہاتھ آجائے کہ گھر بیٹھے وہ لطف حاصل ہو جائے۔ داستان مفصلہ ذیل ان معرکوں کا ایک مرقع کھینچ کر دکھاتی ہے۔ صورت معرکہ، کہتے ہیں کہ اقلیم خیال میں ایک وسیع ولایت تھی جس کا نام ملک فصاحت اور وہاں کے بادشاہ کا لقب ملک الکلام تھا۔ بادشاہ مذکور کے محلوں میں دو بیٹیاں تھیں، ایک کا نام فرحت بانو اور دوسری کا نام دانش خاتون تھا۔ دانش خاتون کا ایک بیٹاتھا۔ یہ سیدھا سادا شخص حسن متانت میں باپ کا خلف الرشید اور تمکنت اور سنجیدگی میں ماں کی تصویر تھا۔ اسے علم کہتے تھے۔ فرحت بانو کی بیٹی ذکاوت تھی کہ باپ کے سبب سے خوش بیانی میں اسم بامسمی اور ماں کے اثر سے زندہ دلی اور شگفتہ مزاجی میں گلاب کے تختہ کو شرمندہ کرتی تھی۔ چوں کہ فرحت بانو اور دانش خاتون دونوں سوکنیں تھیں۔ دونوں بچوں نے بگاڑ ک ادودھ پیا تھا اور بگاڑ ہی میں پرورش پائی تھی۔ یعنی ابتدا سے ایسی باتیں دل پر نقش ہوئی تھیں کہ ایک ایک کو خاطر میں نہ لاتا تھا بلکہ ہرایک دوسرے کی صورت سے بیزار تھا۔ باپ نے دیدہ دوراندیش سے ان کی نا اتفاقی کے نتیجے پہلے ہی دیکھ لیے تھے۔ اس لئے بہت کوشش کی کہ کسی طرح ان کے دل اپنائیت کی گرمیِ محبت سے ملائم ہوں۔ آخرصورت یہ نکالی کہ اپنی نظرمحبت کو دونوں میں برابر تقسیم کر دیا، مگر باپ کی شفقت منصفانہ نے کچھ اثر نہ کیا کیوں کہ ماؤں کی طرف کی عداوت دور تک جڑ پکڑے ہوئے تھی اور بچپنے کے خیالات کے ساتھ مل کر آہستہ آہستہ بہت دور تک پہنچ گئی تھی۔ چنانچہ نئے نئے موقع جو پیش آتے تھے ان میں عداوت مذکور اور بھی پختہ ہوتی جاتی تھی، مگر اس میں شک نہیں کہ دونوں کے دونوں خوبی وکمال کی جان اور تعلیم و تہذیب کے پتلے تھے۔ جب ذرا ہوش سنبھالا تو عالم بالا کے پاک نام نہادوں کی نظران پر پڑنے لگی اور وہاں کی مہمانیوں میں آنے جانے لگے۔ چند روز کے بعد ذکاوت نے باپ کے اشارے سے اپنے نشاط محل میں بڑے بڑے اہل کمال کو جمع کرکے رقاص فلک یعنی زہرہ کی ضیافتیں کرنی شروع کیں۔ مگر ان جلسوں میں علم کا سانگ بھرا اوراس میں اس خوبی سے اس کی ہجو کی کہ محفل کو لٹا لٹا دیا۔ علم نے بہت برا مانا۔ چنانچہ اس کے توڑ پر قاضی افلاک یعنی مشتری کی ضیافت کی اور اپنے زور علم سے شہزادی ذکاوت کی بے اصل سخن سازی اور بے علم طرار یوں کی قلعی کھولنی شروع کی۔ اور مشتری نے عطارد کے اتفاق رائے سے عمامہ فضیلت اس کے سر پر بندھوایا۔ اسے تدبیر اور تقدیر کا انقلاب کہتے ہیں کہ ماں باپ جن لوگوں کو مؤید سمجھ کر فہمایش اور اصلاح کے لئے کہاتھا، وہی چمکانے لگے اور نتیجہ اس کا یہ ہوا کہ عداوت کی آگ اور بھی بھڑک اٹھی۔ اسی عالم میں دونوں بڑے ہوئے اور اب انہیں عالم قدس کے دربار میں جانے کا شوق پیدا ہوا۔ مگر وہ بھی اس 1 لئے نہ تھا کہ خود کچھ عزت و حرمت حاصل کریں بلکہ ہر ایک کی غرض یہ تھی کہ اپنے حریف کی عزت خاک میں ملائے اور جو کچھ اپنے ڈھنگ میں اس نے زور پکڑاہے اسے آگے نہ بڑھنے دے۔ آخر کار دونوں کے جمال و کمال کی بدولت وہ دن آٖ پہنچا کہ رسم رواج کے بموجب دربار آسمانی میں پہنچے۔ اول علم نے تخت کے سامنے کھڑے ہوکر دونوں ہاتھ اٹھائے اور چند فقرے ثنائے الہی اور دعا ئے بادشاہی میں اس حسن تاثیر سے ادا فرمائے کہ سب کی آنکھیں آسمان کو لگ گئیں اور سینہ ہائے گرم کے جوش سے محفل میں ایک گونج پیدا ہوئی۔ بعد اس کے ذکاوت آگے بڑھی۔ زمین خدمت کو بوسہ دیا۔ مگر جب سرا ٹھایا تو چند شعر پڑھ کر ایک تبسم زیرلب کیا کہ گویا ایک چمن پھر زعفران لوگوں پر برسادی۔ انعام یہ ہوا کہ دونوں عالم بالا کے پاک نہادوں میں داخل ہو گئے اور خواجہ خضر نے اپنے مبارک ہاتھ سے آب حیات کا جام بھر کر دیا کہ جب تک آسمان پر چاند سورج کا چاندی سونا ہے تمہارا سکہ روئے زمین پرچلتا رہے۔ دربار آسمانی میں قدیم سے ملنساری اور اخلاق کا انتظام تھا۔ افسوس یہ کہ اس وقت سے اس میں خلل آ گیا کیوں کہ دربار میں داخل ہوکر دونوں نوجوانوں کے دماغ بگڑے اور دل نمود اور افتخار کے جوش سے بھڑک اٹھے۔ پھر اس پر ساتھ والوں کی واہ واہ غضب تھی کہ ادھر اسے بڑھاتے تھے ادھر اسے چڑھاتے تھے، مگر ان حملوں کی بوچھاڑیں دونوں کے جی چھڑوائے دیتی تھیں، جن کا تار نہ ٹوٹتا تھا اور فتح کایہ حال تھا کہ ادل بدل کرتی تھی۔ کبھی ادھر کاپلہ جھکا دیتی تھی، کبھی ادھر کا۔ ایک بالکل مغلوب نہ ہو جاتا تھا کہ دو ٹوک ہوکر فیصلہ ہو جائے۔ جس وقت کہ بحث شروع ہوتی تھی تو ذکاوت اس زرق برق اور طمطراق سے آتی تھی کہ سب کو اسی کی جیت نظرآتی تھی۔ بلبل کی طرح چمک اٹھتی تھی کہ گویا کبھی نہ بجھے گی اور علم روکھی پھیکی صورت بنائے اپنے زور کو ذرا دبائے رکھتا تھا یہاں تک کہ تعریفوں کا جوش وخ روش بگولے کی طرح گزر جاتا۔ مگر اس کے بعد جو ٹھہراؤ شروع ہوتا وہی علم کی طرف سے پکارتا تھا کہ اب ذرا ٹھہروگے تو خاطر جمعی سے سنوگے۔ پھرعلم بھی دفعیے شروع کرتا۔ یہ عالمانہ دفعیے روکھے سوکھے توہوتے تھے مگروہ یا تو حریف کے اعتراضوں کو آپس میں لڑاکر اس کی باتوں سے اسی کو جھوٹا کر دیتے تھے یا یہ ذہن نشیں کر دیتے تھے کہ ذکاوت کے دلائل اصلاً قابل وقار و اعتبار نہیں یعنی اس نے سارے مقدمہ کے مطلب کو لیا ہی نہیں۔ ایک ٹکڑا توڑ کر اس پر باتوں کا طومار باندھ دیا ہے۔ اس تقریر کو سن کرسب آپس میں تصدیق وتسلیم کی نگاہوں سے دیکھتے تھے۔ مگر پھر جب کہ ذکاوت کی رسیلی آواز نکلتی تو سب کے کان ادھر ہی لگ جاتے ہیں۔ شور و غل چپ چاپ اور ساری محفل ایسی خاموش ہوتی کہ سناٹے کا عالم ہو جاتا۔ اس میں بھی جہاں جہاں موقع پاتی حریفانہ لطیفوں اور ظریفانہ چٹکلوں سے علم کو ایسا چٹکیوں میں اڑا جاتی کہ سننے والوں کے منہ پر تحسین و آفرین کا ایک حرف نہ چھوڑتی۔ پھر ادھر سے علم اپنے ہدایت نامہ کے طومار لے کر کھڑا ہوتا۔ اول تو ذکاوت کا اور اس کے کلام کا سفلہ پن دکھاتا کہ یہ متانت سے خالی ہے۔ جو جو رنگ اس نے جمائے تھے انہیں حقیقی اور تحقیقی دلیلوں سے بلکہ آیتوں اور روایتوں سے اس طرح مٹاتا کہ اہل نظر کو سوائے سر ہلانے اور بجا و برحق کہنے کے کچھ بن نہ آتی۔ یہاں تک کہ رفتہ رفتہ اہل محفل نے اپنی غلط فہمی کو چھوڑنا شروع کیا اور جب محفل کا خاتمہ کرکے اٹھے تو علم کے دلائل صادقہ کے لئے عظمت دلوں میں لئے اٹھے۔ مگرجتنے اس کی عظمت لئے اٹھے، اتنی ہی اس کی شوخی وشگفتہ بیانی کے لئے مہر و محبت لئے اٹھے۔ جب دونوں کے کمال اپنی اپنی اعزاز و قدردانی کے لئے اہل نظر سے سفارش کرتے تھے توحسن طلب کے انداز بالکل الگ الگ تھے۔ ذکاوت تیز اور بے باک ہوکر ایسی چمک دمک سے آتی تھی کہ دیکھنے والوں کی آنکھ نہ ٹھہرتی تھی۔ علم بھی آگے بڑھتا تھا مگراپنے وقار ومتانت میں کمال بندوبست اور نہایت روک تھام سے قدم اٹھاتا تھا۔ ذکاوت کندذہنی اور دیر فہمی کے داغ سے بہت بچتی تھی اور علم چوک جانے اور دھوکہ کھانے کے سوا کسی تہمت سے نہیں ڈرتا تھا۔ ذکاوت کی طراری کایہ عالم تھا کہ سمجھنے سے پہلے ہی جواب دے اٹھتی تھی کہ ایسا نہ ہو میری تیز فہمی پرحرف آئے۔ علم کی یہ قباحت تھی کہ سیدھی سی بات میں بھی اس خیال سے اٹک جاتا تھا کہ حریف نے اپنی تقریر میں جو جو توڑ جوڑ مار ے ہیں ان میں سے ایک دقیقہ بھی بے کھولے نہ رہ جائے۔ برخلاف اس کے ذکاوت، علم کی ہر بحث کو جھٹ پٹ بلکہ اس گھبراہٹ سے خاک میں ملا دیتی تھی کہ وہ دیکھتا رہ جاتا تھا۔ مگر پھرعلم اس کی بات میں بال بال کے فرق اس تفصیل سے دکھاتا تھا کہ سننے والے اکتا جاتے تھے بلکہ جن باتوں کا آج تک کسی نے انکار نہ کیا تھا ان کے ثبوتوں میں خواہ مخواہ بات کو طول دے کر وقت ضائع کرتا تھا۔ ذکاوت اپنی نمود کی ہوس میں ایسی ایسی باتیں بھی پیش کر دیتی تھی کہ جنہیں نہ سوچا تھا نہ سمجھا تھا۔ اور اس میں بھی شک نہیں کہ اکثر دلچسپ اور دل پسند خیالوں کو خوش نمائی سے دکھ اکر کامیاب بھی اس قدر ہو جاتی تھی جس کی اسے خود بھی امید نہ تھی۔ برخلاف اس کے علم اکثر قدما کے قدموں پر چلتا تھا۔ وہ نئے خیالوں سے بچتا تھا اور ڈرتا تھا کہ ایسا نہ ہوکہیں ان نتیجوں میں پھنس جائے جنہیں ان کی نظر پیش بین دیکھ نہیں سکتی۔ اکثر ڈھب ایسے آپڑتے تھے کہ اگر ذرا بھی ہمتِ کامیاب کو اور آگے بڑھاتا تودشمن کو مارہی لیتا مگر احتیاط جو اس کا جانی رفیق تھا وہ روک لیتا تھا۔ حق یہ ہے کہ غلط فہمی سے دونوں خالی نہ تھے اور اسی نے دونوں کو تیرہائے اعتراض کے نشانے پر رکھا ہوا تھا۔ ایجاد اور اختراع تو ذکاوت کے مصاحب تھے اور قدامت اور تقلید، علم سے بہت محبت رکھتے تھے۔ چنانچہ اسی واسطے ذکاوت کو تو وہی بات پسند آتی تھی جوکہ آج تک کسی نے دیکھی ہو نہ سنی ہو۔ علم کا قاعدہ تھا کہ بزرگان سلف کے قدم بقدم چلتا تھا اوران کی ایک ایک بات پر جان قربان کرتا تھا بلکہ اس کے نزدیک جس قدر بات پرانی تھی اسی قدر اور آنکھوں پر رکھنے کے قابل تھی۔ برخلاف اس کے ذکاوت پرانے پن سے بہت گھبراتی اور ہر رنگ میں نیاشعبدہ دکھاتی تھی۔ اس ک ایہ قاعدہ تھا کہ دلائل سے قائل نہ کر سکتی تولطائف اور ظرائف ہی سہی۔ غرض واہ واہ لیے بغیر نہ چھوڑتی تھی۔ اوراسے قائل کرنے کی کچھ پروا بھی نہ تھی۔ مگرعلم اپنی رائے کو ہمیشہ اسے سنجیدہ اصول اور نپے تلے قواعد سے سنبھالے رہتا تھا کہ اگر مقدمہ اس کے برخلاف بھی فیصل ہوجائے تو اس کے دلائل برجستہ کو یاد کرکے مدتوں تک تعریفیں ہوتی رہیں۔ مناظرہ کے شوقینو! دیکھو اب دونوں حریف اپنی اپنی چال بھولتے ہیں۔ چندروز کے بعدان کی طبیعتوں میں ایک تبدیلی واقع ہوئی کہ دونوں نے اپنی اپنی خاصیت اصلی کو چھوڑ دیا۔ یعنی ہر ایک یہ سمجھنے لگا کہ جو حربہ حریف نے کیا ہے یہی حربہ میں کروں، دو ٹوک فتح ہو جائے، یعنی اس نے اس کے رنگ لینے شروع کیے اور اس نے اس کے ڈھنگ پر چلنا شروع کیا۔ چنانچہ دونوں طرف یہی چلتا ہتھیار ہو گیا، یعنی کبھی کبھی ذکاوت دلائل منطقی پر بھی طمع آزمائی کرتی تھی۔ علم ان دلیلوں کو لچر سمجھ کر فقط مسکرا دیتا تھا مگر اس طرح کہ ان سب کی صورت بگڑ جاتی تھی۔ ساتھ ہی اس کے طرف دار چلاتے تھے کہ واہ واہ دلیل کا نام بھی نہ تھا، یہ تو باتوں ہی باتوں کا مصالح تھا۔ ان تجربوں میں دونوں نقصان پر نقصان پاتے تھے اور خود اپنی حقیقت کو دشمن کے ہاتھوں میں ڈال کر سبک ہوتے تھے اور ذلتیں اٹھاتے تھے، غرض جس طرح ذکاوت کی طبیعت میں متانت و وقار اور بات میں بوجھ بھار نہ تھا اسی طرح علم کے کلام میں ظرافت کا نمک اور رنگینی کا نقش و نگار نہ تھا، دو قدم چلتا اور گر پڑتا۔ یہ مباحثے ایسے مدت دراز تک جاری رہے کہ لازم و ملزوم ہو گئے اورعالم بالا میں بھی فرقے فرقے ہو کر دونوں طرف جتھے بندھ گئے۔ چنانچہ ذکاوت کو زہرہ نے اپنے دامن حمایت میں لے لیا اور تبسم، تمسخر، مزاح، دل لگی کو اس کے ساتھ کرکے کہا کہ حسن و جمال کی پریوں میں جا کرجلسے کیا کرو۔ ادھرعلم پرمشتری کی نظر عنایت رہی۔ مگر وہ تو خود خشک مغز تھے، اپنے محل سے باہر نہ نکلتے تھے اور جب نکلتے تھے تو عصمت، حرمت، عزت، محنت، اعتدال، تحمل، تقوی روکھے پھیکے کبھی کبھی کے بڈھے اور پراتم بڑھیاں جلو میں لے کر نکلتے تھے اور کسی درگاہ یا خانقاہ تک جاکر چلے آتے تھے۔ خوش بیانو! دیکھنا، طنز و تعریض کی نہ ٹھہرے، نہیں تو خواہ مخواہ لڑائی ہو پڑےگی۔ نئی بات یہ ہوئی کہ ذکاوت کے سنگارخانے میں زیور و لباس پہنانے کے لئے دو کاردانوں کی ضرورت ہوئی اور اس میں طنز اور تعریض آ کر نوکر ہو گئے۔ انہوں نے اپنی رفاقت میں ایک شخص کو رکھا تھا کہ جسے بغض دیوزاد کہتے تھے۔ اس کے ہاتھ میں ایک کمان تھی اور پشت پر ایک ترکش آویزاں تھا، جس میں طعن و تعریض نے تیر بھرے تھے اور عداوت کے زہر میں بجھائے تھے۔ ان تیروں کا اثر یہ تھا کہ جہاں لگتے وہاں ایسے جم کر بیٹھتے کہ نہ کسی جراح کا جتن چلتا نہ کسی حکیم کا ہنرپیش جاتا۔ چنانچہ جب علم کسی امر مفید یا غور کے کام میں مصروف ہوتا یا اپنے معتقدوں کو فیض علم پہنچاتا، یہ اس وقت ذکاوت کی طرف سے تیر مارا کرتا۔ اس کا بندوبست اور کچھ نہ ہو سکا، فقط اتنا ہوا کہ مشتری نے نکتہ چینی اور غلط گیری کو دو ڈھالیں دے کر ساتھ کر دیا کہ اگر جواب ترکی بہ ترکی نہ ہو سکے تو اس سے روکا کرو۔ چنانچہ یہ دونوں اکثر تیروں کی نوکیں توڑ دیتے تھے۔ کبھی بھال نکال کر پھینک دیتے تھے کبھی اسی پر الٹ دیتے تھے۔ جب سلطان آسمانی نے دیکھا کہ ان کے آئے دن کے رگڑوں اور جھگڑوں سے عالم بالا کے امن میں خلل آنے لگا تو بہت خفا ہوا اور ارادہ کیا کہ ان دونوں جھگڑالوؤں کو عالم خاکی میں ڈال دے۔ چنانچہ آخرکار دونوں دنیا میں آپڑے اور اپنے قدیمی جھگڑے یہاں بھی جاری کر دیے۔ یہاں دونوں کے ساتھ بڑے بڑے گرم جوش معتقد جمع ہو گئے۔ ذکاوت نے اپنی خوشنمائی سے نوجوانوں اور رنگین مزاجوں کو لبھا لیا اور علم نے اپنی متانت و وقار سے پرانے پرانے بڈھوں کو پھسلایا۔ ان لوگوں کی بدولت تھوڑے ہی عرصہ میں نئے نئے شگوفے کھلنے لگے اور بڑے بڑے اثر اس کے ظہور میں آئے۔ چنانچہ ذکاوت کے جلوس کے لئے گلزار اور پر بہار سیرگاہیں سجائی گئیں کہ جو اس کے قدرداں ہوں، وہاں استقبال کو حاضر ہوں۔ اسی طرح علم کے لئے مدرسے، مسجدیں، درگاہیں اور خانقاہیں قرار پائیں۔ دونوں جتھے اس پر جان دیتے تھے کہ شان وشکوہ اور ناموری اور دردیادلی میں دوسرے سے بازی لے جائیں، اس طرح کہ اپنے حریف کوگرد کر دیں اور اس عقیدے کے پھیلانے میں عرق ریزی کررہے تھے کہ جو مخلوق دنیا میں پیدا ہو، اسے واجب ہے کہ دونوں میں سے ایک فریق میں ضرور داخل ہو۔ ساتھ اس کے یہ بھی تھا کہ جو شخص طرفین میں سے کسی کی بارگاہ میں ایک دفعہ بھی جا نکلے پھر اسے دوسرے کی نظرعنایت کی امید نہ رکھنی چاہئے۔ اس خاکدان ظلمانی میں ایک خاکی جماعت تھی کہ وہ دونوں میں سے ایک کو بھی نہ مانتی تھی۔ یہ لوگ روتی صورت، سوتی مورت، دولت کے بندے تھے اور اسی کی عبادت کرتے تھے۔ زر و مال کے خزانے ان کے عبادت خانے تھے۔ وہاں کیا علم، کیا ذکاوت کسی کی بھی دعا قبول نہ ہوتی تھی اورسبب اس کا یہ تھا کہ ان کی آنکھوں پر روپے کی چربی چھائی ہوئی تھی اور کانوں میں غفلت کی روئی تھی۔ ذکاوت نے ان پربہت بہت گل افشانیاں کیں، مگر ان کے لبو ں پر کبھی تبسم کا رنگ بھی نہ آیا اور علم نے بھی اپنی فصاحت وبلاغت سے بہت دماغ سوزی کی تھی، مگر ان کی طبع خوابیدہ نے پھریری بھی نہیں لی تھی۔ البتہ کبھی کسی کی آنکھیں روشن بھی ہو جاتی تھیں مگر دولت کا ایک مرید خاص ان پر تعینات تھا۔ وہ اسی وقت آکر ان کی آنکھوں میں ایک سرمہ دے جاتا تھا کہ ہر چیز انہیں چھوٹی اور حقیر ہی نظر آتی تھی۔ غرض ان کی کم نظری اور بے اعتنائی، علم اور ذکاوت دونوں کو بری معلوم ہوئی۔ چنانچہ یہ دونو متفق ہو گئے اوراپنے اپنے معتقدوں کو چڑھا کر بھیجا۔ انہوں نے اسی وقت دولت پرستوں کے عبادت خانوں کا رخ کیا اور جاتے ہی کسی کے پہلو میں اشاروں کنایوں کی چٹکیاں لیں اور کسی کی بغل میں ظرافت کی گدگدیاں شروع کردیں۔ اس وقت سارے دولت پرست چونک پڑے اور جب کچھ نہ بن آیا تو گھبرا کر روپے کو مدد کے لئے بلایا۔ روپے کے پاس بڑے نقش اور منتر تھے۔ وہ آیا اور اپنے سارے ہتھکنڈے چلترکام میں لایا۔ مگر کوئی پیچ اس کا چل نہ سکا۔ پھر بھی اتنا ہوا کہ ذکاوت اور علم نے جواپنے اپنے معتقد بھیجے تھے ان میں پھوٹ ڈال دی اور اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ انہوں نے اپنے آقاؤں کے راز کھولنے شروع کر دیے یعنی جو کچھ ذکاوت اور علم تحریر کرتے یہ جھٹ دولت پرستوں کو خبر جا پہنچاتے بلکہ جب کچھ تجویزدولت پرستوں کی ذلت کے لئے عمل میں آتی تو یہ رشوت خور کارگزار دل میں برا مانتے اور اگر کچھ حکم لے کر جاتے بھی تو دولت پرستوں کے سامنے خوشامد کے پیرایہ میں ظاہر کرتے۔ وہ باوجود اس کے کہ دل میں انہیں بھی حقیر ہی سمجھتے تھے، جب یہ خوشامدی رفتہ رفتہ دولت اور دولت پرستوں کے درجہ عنایت تک جا پہنچے تو خوشامد کی بدولت بڑے بڑے انعام اور جاگیریں حاصل کیں۔ چندروز کے بعد ایسے بددماغ ہوئے کہ جواہل عزت خود ان کے آقاؤں کے مصاحب تھے ان سے پہلو مارکر چلنے لگے اور ان کے مقابل میں اپنے تئیں بہ نظر فضیلت دیکھنے لگے۔ القصہ جب ذکاوت اورعلم دونوں نے دیکھا کہ اہل دنیا کا وہ حال ہے اور جو نوکر اپنے تھے وہ سب نمک حرام ہو گئے تودونو نے مل کر دوعرضیاں تیار کیں، جن میں دولت اور دولت پرستوں کی زیادتیاں اور اپنے نمک حراموں کی بدذاتیاں سب لکھیں اورسلطان آسمانی کی خدمت میں بھیج کر التجا کی کہ ہمیں ہماری قدیمی آرام گاہ میں جگہ مل جائے۔ یہ عرضی سن کر سلطان آسمانی داہنے ہاتھ کو بڑے زور شور سے گرجے۔ اس کے یہ معنی کہ ان سب کا رو سیاہ کرو، اور دونوں ہمارے پاس چلے آؤ۔ اس حسن طلب کو نہایت غنیمت سمجھے اور خوشی خوشی شکریے کرتے ہوئے چلنے کو تیار ہوئے۔ ذکاوت نے جھٹ بازو پھیلائے اور غبار سے دامن جھاڑتی ہوئی آسمان کو اڑی۔ لیکن اس فضائے لا انتہا میں کہ جہاں نہ راہ تھی نہ رہنما، نظر دور تک کام نہ کرسکتی تھی۔ اس لئے چندہی قدم پرستہ بھول گئی۔ علم رستے خوب جانتے تھے۔ چنانچہ انہوں نے بھی پر خوب ہلائے، مگر ان کے بازوؤں میں زور نہ تھا۔ چھوٹی چھوٹی اڑانیں کیا کرتے تھے۔ غرض کہ ہاتھ پاؤں مار کر دونوں زمین پرآ پڑے۔ اس وقت ایک دوسرے کی مصیبت کو خیال کرکے سمجھے کہ اب اتفاق کے سوا گزارہ نہیں۔ ناچار دونوں نے ہاتھ ملائے اور پھر اڑے۔ علم کو تو ذکاوت کی قوت پر واز کا سہارا ملا اور ذکاوت کو علم دوربین نے رستہ بتایا۔ پلک مارتے سلطان آسمانی کے دربارمیں جا داخل ہوئے۔ چونکہ بگاڑ کے مزے دونوں نے خوب چکھ لئے تھے، اس لئے اب کی دفعہ دونو میں بہت محبت اور اخلاص ہوا۔ مگر ذکاوت نے علم کو صلاح دی کہ بھائی تم ذرا حسن ظرافت اور اس کی سہیلیوں سے نشست برخاست رکھا کرو۔ اسی طرح انہوں نے ذکاوت کو سمجھایا کہ تم ذرا صلاح و اعتدال کی خدمت میں بھی حاضر ہوا کرو۔ ان صحبتوں نے دونوں کی طبیعتوں میں بڑا اثر کیا۔ علم کی خشک دماغی کو حسن اور ظرافت کی طراوت پہنچی۔ ذکاوت کی شوخی اور طراری نے صلاح سے اصلاح پائی۔ دونوں آہستہ آہستہ عالم بالا کے پری زادوں میں ایسے ہردل عزیز ہو گئے کہ جس جلسہ میں یہ نہ ہوں، اس میں رونق ہی نہ معلوم ہوتی تھی۔ چند روز کے بعد سلطان آسمانی کے ایما سے دونوں نے شادیاں کر لیں اور ان کی نسلوں سے علوم و فنون کی اولاد کے سلسلے جاری ہو گئے۔ حاشیہ(۱) دیکھو، ہمارے بھائی بند جب آپس میں مباحثہ کرتے ہیں یا لوگوں پر اپنا کمال ظاہر کرتے ہیں تو زیادہ تر حریف پر اعتراض کرتے ہیں اور اس کے خراب کرنے میں کوشش کرتے ہیں، تصنیف و تالیف دکھا کر اپنے کمال کی تقویت نہیں کرتے۔


This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.