عمر آخر ہے جنوں کر لوں بہاراں پھر کہاں
عمر آخر ہے جنوں کر لوں بہاراں پھر کہاں
ہاتھ مت پکڑو مرا یارو گریباں پھر کہاں
چشم تر پر گر نہیں کرتا ہوا پر رحم کر
دے لے ساقی ہم کو مے یہ ابر باراں پھر کہاں
یار جب پہنے جواہر کر دے اے دل جی نثار
جل چک اے پروانے یہ رنگیں چراغاں پھر کہاں
اس طرح صیاد کب آزاد چھوڑے گا تمہیں
بلبلو دھومیں مچا لو یہ گلستاں پھر کہاں
ہے بہشتوں میں یقیںؔ سب کچھ ولیکن درد نئیں
بھر کے دل رو لیجئے یہ چشم گریاں پھر کہاں
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |