عمر بھر اس پہ میں مرا ہی کیا
عمر بھر اس پہ میں مرا ہی کیا
وہ مسیحا بھی دم دیا ہی کیا
تھا وہ نا آشنا مزاج ولے
آخرش ہم نے آشنا ہی کیا
عاشقی کے سوا بھی ہم نے اور
جو کیا کام سو برا ہی کیا
کر گئے قیس و کوہکن جو جو
ہم نے اس سے بھی کچھ سوا ہی کیا
گو بھلا یا برا تھا شعر اپنا
سن کے یاروں نے واہ وا ہی کیا
اک نہ اک اس کی زلف برہم سے
پیچ دل پر مرے پڑا ہی کیا
شب فرقت میں منتظرؔ ہر روز
شمع سا دل مرا جلا ہی کیا
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |