عمل سیں مے پرستوں کے تجھے کیا کام اے واعظ
عمل سیں مے پرستوں کے تجھے کیا کام اے واعظ
شراب شوق کا تو نے پیا نیں جام اے واعظ
لگے گا سنگ خجلت شیشۂ ناموس پر تیرے
عبث ہم بے گناہوں کوں نہ کر بد نام اے واعظ
نہیں ہے امتیاز نیک و بد چشم حقیقت میں
مجھے یکساں ہوا ہے کفر اور اسلام اے واعظ
نیاز بے خودی بہتر نماز خود نمائی سیں
نہ کر ہم پختہ مغزوں سیں خیال خام اے واعظ
کلام نقطۂ علم مختصر ہے سب معانی کا
بیان منطق درسی کوں نیں انجام اے واعظ
وو شیریں لب کی کڑوے بول امرت ہیں مرے حق میں
تجھے معلوم کیا ہے لذت دشنام اے واعظ
سراجؔ اس کعبۂ جاں کے تصور کوں کیا سمرن
یہی ورد سحر ہے اور دعائے شام اے واعظ
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |