عورت ذات (1950)
by سعادت حسن منٹو
319974عورت ذات1950سعادت حسن منٹو

مہاراجہ گ سے ریس کورس پر اشوک کی ملاقات ہوئی۔ اس کے بعد دونوں بے تکلف دوست بن گئے۔مہاراجہ گ کو ریس کے گھوڑے پالنے کا شوق ہی نہیں خبط تھا۔ اس کے اصطبل میں اچھی سے اچھی نسل کا گھوڑا موجود تھا۔ اور محل میں جس کے گنبد ریس کورس سے صاف دکھائی دیتے تھے، طرح طرح کے عجائب موجود تھے۔

اشوک جب پہلی بار محل میں گیا تو مہاراجہ گ نے کئی گھنٹے صرف کرکے اسکو اپنے تمام نوادر دکھائے۔ یہ چیزیں جمع کرنے میں مہاراجہ کو ساری دنیا کا دورہ کرنا پڑا تھا۔ ہر ملک کا کونہ کونہ چھاننا پڑا تھا۔ اشوک بہت متاثر ہوا۔ چنانچہ اس نے نوجوان مہاراجہ گ کے ذوقِ انتخاب کی خوب داد دی۔

ایک دن اشوک گھوڑوں کے ٹپ لینے کے لیے مہاراجہ کے پاس گیا تو وہ ڈارک روم میں فلم دیکھ رہا تھا۔ اس نے اشوک کو وہیں بلوالیا۔ سکیٹن ملی میٹر فلم تھے جہا مہاراجہ نے خود اپنے کیمرے سے لیے تھے۔ جب پروجیکٹر چلا تو پچھلی ریس پوری کی پوری پردے سے دوڑ گئی۔ مہاراجہ کا گھوڑا اس ریس میں ون آیا تھا۔

اس فلم کے بعد مہاراجہ نے اشوک کی فرمائش پر اور کئی فلم دکھائے۔ سوئٹزرلینڈ، پیرس، نیویارک،ہونو لولو، ہوائی، وادیِ کشمیر۔۔۔ اشوک بہت محظوظ ہوا ۔یہ فلم قدرتی رنگوں میں تھے۔اشوک کے پاس بھی سکیٹن ملی میٹر کیمرہ اور پروجیکٹر تھا۔ مگر اس کے پاس فلموں کا اتنا ذخیرہ نہیں تھا۔ دراصل اس کو اتنی فرصت ہی نہیں ملتی تھی کہ اپنا یہ شوق جی بھر کے پورا کرسکے۔ مہاراجہ جب کچھ فلم دکھا چکا تو اس نے کیمرے میں روشنی کی اور بڑی بے تکلفی سے اشوک کی ران پر دھپا مار کرکہا،’’اور سناؤ دوست۔‘‘

اشوک نے سگریٹ سلگایا، ’’مزا آگیا فلم دیکھ کر۔‘‘

’’اور دکھاؤں؟‘‘

’’نہیں نہیں‘‘

’’نہیں بھئی ایک ضرور دیکھو۔۔۔ مزا آجائے گاتمہیں۔‘‘ یہ کہہ کر مہاراجہ گ نے ایک صندوقچہ کھول کر ایک ریل نکالی اور پروجیکٹر پرچڑھا دی، ’’ذرا اطمینان سے دیکھنا۔‘‘اشوک نے پوچھا’’ کیا مطلب؟‘‘ مہاراجہ نے کمرے کی لائٹ اوف کردی،’’ مطلب یہ کہ ہر چیز غور سے دیکھنا۔‘‘ یہ کہہ کر اس نے پروجیکٹر کا سوئچ دبا دیا۔پردے پر چند لمحات صرف سفید روشنی تھرتھراتی رہی، پھر ایک دم تصویریں شروع ہوگئیں۔ ایک الف ننگی عورت صوفے پر لیٹی تھی۔ دوسری سنگار میز کے پاس کھڑی اپنے بال سنوار رہی تھی۔اشوک کچھ دیر خاموش بیٹھا دیکھتا رہا۔۔۔ اس کے بعد ایک دم اس کے حلق سے عجیب و غریب آواز نکلی۔ مہاراجہ نے ہنس کر اس سے پوچھا، ’’کیا ہوا؟‘‘

اشوک کے حلق سے آواز پھنس پھنس کر باہر نکلی،’’ بند کرو یار۔۔۔ بند کرو۔‘‘

’’کیا بند کرو؟‘‘

اشوک اٹھنے لگا۔ مہاراجہ گ نے اسے پکڑ کربٹھا دیا،’یہ فلم تمہیں پورے کا پورا دیکھنا پڑے گا۔‘‘ فلم چلتا رہا۔ پردے پر برہنگی منہ کھولے ناچتی رہی۔ مرد اور عورت کا جنسی رشتہ مادر زاد عریانی کے ساتھ تھرکتا رہا۔ اشوک نے ساراوقت بے چینی میں کاٹا۔ جب فلم بند ہوا اور پردے پر صرف سفید روشنی تھی تو اشوک کو ایسا محسوس ہوا کہ جو کچھ اس نے دیکھا تھا، پروجیکٹر کی بجائے اسکی آنکھیں پھینک رہی ہیں۔مہاراجہ گ نے کمرے کی لائٹ اون کی اور اشوک کی طرف دیکھا اور ایک زور کا قہقہہ لگایا،’’کیا ہوگیا ہے تمہیں؟‘‘ اشوک کچھ سکڑ سا گیا تھا۔ ایک دم روشنی کے باعث اسکی آنکھیں بھنچی ہوئی تھیں۔ ماتھے پر پسینے کے موٹے موٹے قطرے تھے۔ مہاراجہ گ نے زور سے اس کی ران پر دھپا مارا۔ اور اس قدر بے تحاشا ہنسا کہ اس کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔ اشوک صوفے پرسے اٹھا۔ رومال نکال کر اپنے ماتھے کا پسینہ پونچھا،’’کچھ نہیں یار۔‘‘

’’کچھ نہیں کیا۔۔۔ مزا نہیں آیا؟‘‘اشوک کا حلق سوکھا ہوا تھا۔ تھوک نگل کر اس نے کہا،’’ کہاں سے لائے یہ فلم؟‘‘ مہاراجہ نے صوفے پر لیٹتے ہوئے جواب دیا،’’ پیرس سے ۔۔۔ پے ری۔۔۔ پے ری!‘‘ اشوک نے سر کو جھٹکا سا دیا۔’’ کچھ سمجھ میں نہیں آتا۔‘‘

’’کیا؟‘‘

’’یہ لوگ۔۔۔ میرا مطلب ہے کیمرے کے سامنے یہ لوگ کیسے۔۔۔‘‘

’’یہی تو کمال ہے۔۔۔ ہے کہ نہیں؟‘‘

’’ہے تو سہی۔‘‘ یہ کہہ کر اشوک نے رومال سے اپنی آنکھیں صاف کیں،’’ساری تصویریں جیسے میری آنکھوں میں پھنس گئی ہیں۔‘‘ مہاراجہ گ اٹھا،’’میں نے ایک دفعہ چنڈ لیڈیز کو یہ فلم دکھایا۔‘‘

اشوک چلایا،’’لیڈیز کو؟‘‘

’’ہاں ہاں۔۔۔ بڑے مزے لے لے کردیکھا انھوں نے۔‘‘

’’غلط‘‘

مہاراجہ نے بڑی سنجیدگی کے ساتھ کہا،’’سچ کہتا ہوں۔۔۔ ایک دفعہ دیکھ کر دوسری دفعہ پھر دیکھا۔بھینچتی، چلاتی اور ہنستی رہیں۔‘‘ اشوک نے اپنے سر کو جھٹکا سا دیا،’’حد ہوگئی ہے۔۔۔ میں توسمجھتا تھا وہ۔۔۔ بے ہوش ہوگئی ہوں گی۔‘‘

’’میرا بھی یہی خیال تھا، لیکن انھوں نے خوب لطف اٹھایا۔‘‘

اشوک نے پوچھا،’’کیا یورپین تھیں؟‘‘ مہاراجہ گ نے کہا،’’نہیں بھائی۔۔۔ اپنے دیس کی تھیں۔۔۔ مجھ سے کئی باریہ فلم اور پروجیکٹر مانگ کر لے گئیں۔۔۔ معلوم نہیں کتنی سہیلیوں کو دکھا چکی ہیں۔۔۔‘‘

’’میں نے کہا۔۔۔‘‘اشوک کچھ کہتے کہتے رک گیا۔

’’کیا؟‘‘

’’ایک دو روز کے لیے یہ فلم دے سکتے ہو مجھے؟‘‘

’’ہاں ہاں لے جاؤ!‘‘ یہ کہہ کر مہاراجہ نے اشوک کی پسلیوں میں ٹھونکادیا،’’سالے کس کو دکھائے گا۔‘‘

’’دوستوں کو‘‘

’’دکھا جس کو بھی تیری مرضی!‘‘ یہ کہہ کر مہاراجہ گ نے پروجیکٹر میں سے فلم کا اسپول نکالا۔ اس کو دوسرے اسپول پر چڑھا دیا اور ڈبہ اشوک کے حوالے کردیا۔’’لے پکڑ۔۔۔عیش کر!‘‘اشوک نے ڈبہ ہاتھ میں لے لیا تو اس کے بدن میں جھرجھری سی دوڑ گئی۔ گھوڑوں کے ٹپ لینا بھول گیا اور چند منٹ ادھر ادھر کی باتیں کرنے کے بعد چلا گیا۔گھر سے پروجیکٹر لے جا کر اس نے کئی دوستوں کویہ فلم دکھایا۔تقریباً سب کے لیے انسانیت کی یہ عریانی بالکل نئی چیز تھی۔ اشوک نے ہر ایک کارد عمل نوٹ کیا۔ بعض نے خفیف سی گھبراہٹ اور فلم کا ایک ایک انچ غور سے دیکھا۔ بعض نے تھوڑا سا دیکھ کر آنکھیں بند کرلیں۔ بعض آنکھیں کھلی رکھنے کے باوجود فلم کو تمام و کمال طور پر نہ دیکھ سکے۔ ایک برداشت نہ کرسکا اور اٹھ کرچلا گیا۔

تین چار روز کے بعد اشوک کو فلم لوٹانے کا خیال آیا تو اس نے سوچا کیوں نہ اپنی بیوی کو دکھاؤں چنانچہ وہ پروجیکٹر اپنے گھر لے گیا۔رات ہوئی تو اس نے اپنی بیوی کو بلایا۔ دروازے بند کیے۔ پروجیکٹر کا کنکشن وغیرہ ٹھیک کیا۔ فلم نکالا۔ اس کو فِٹ کیا۔ کمرے کی بتی بجھائی اور فلم چلادیا۔

پردے پر چند لمحات سفید روشنی تھرتھرائی۔ پھر تصویریں شروع ہوئیں۔ اشوک کی بیوی زور سے چیخی،تڑپی، اچھلی۔ اس کے منہ سے عجیب و غریب آوازیں نکلیں۔ اشوک نے اسے پکڑ کربٹھانا چاہا تو اس نے آنکھوں پر ہاتھ رکھ لیے اور چیخنا شروع کردیا،’’بند کرو۔۔۔ بند کرو۔‘‘

اشوک نے ہنس کر کہا،’’ارے بھئی دیکھ لو۔۔۔ شرماتی کیوں ہو؟‘‘

’’نہیں نہیں‘‘یہ کہہ کر اس نے ہاتھ چھڑا کر بھاگنا چاہا۔اشوک نے اسکو زور سے پکڑ لیا، وہ ہاتھ جو اس کی آنکھوں پر تھا، ایک طرف کھینچا۔ اس کھینچا تانی میں دفعتا اشوک کی بیوی نے رونا شروع کردیا۔ اشوک کے بریک سے لگ گئے۔ اس نے تو محض تفریح کی خاطر اپنی بیوی کو فلم دکھایا تھا۔روتی اور بڑبڑاتی اس کی بیوی دروازہ کھول کر باہر نکل گئی۔ اشوک چند لمحات بالکل خالی الذہن بیٹھا ننگی تصویریں دیکھتا رہا۔ جو حیوانی حرکات میں مشغول تھیں، پھر ایک دم اس نے معاملہ کی نزاکت کو محسوس کیا۔ اس احساس نے اسے خجالت کے سمندر میں غرق کردیا۔۔۔ اس نے سوچا مجھ سے بہت ہی نازیبا حرکت سرزد ہوئی۔ لیکن حیرت ہے کہ مجھے اس کا خیال تک نہ آیا۔۔۔ دوستوں کو دکھایا تھا۔ ٹھیک تھا۔ گھر میں اور کسی کو نہیں، اپنی بیوی۔۔۔ اپنی بیوی کو۔۔۔ اس کے ماتھے پرپسینہ آگیا۔

فلم چل رہا تھا۔ مادر زار برہنگی مختلف آسن اختیار کرتی دوڑ رہی تھی۔ اشوک نے اٹھ کر سوئچ اوف کردیا۔۔۔ پردے پرسب کچھ بجھ گیا۔ مگر اس نے اپنی نگاہیں دوسری طرف پھیر لیں۔ اس کا دل و دماغ شرمساری میں ڈوبا ہوا تھا۔ یہ احساس اس کو چبھ رہا تھا کہ اس سے ایک نہایت ہی نازیبا۔۔۔ نہایت ہی واہیات حرکت سرزد ہوئی۔ اس نے یہاں تک سوچا کہ وہ کیسے اپنی بیوی سے آنکھ ملا سکے گا۔کمرے میں گُھپ اندھیرا تھا۔ ایک سگریٹ سلگا کر اس نے احساسِ ندامت کو مختلف خیالوں کے ذریعہ سے دورکرنے کی کوشش کی مگر کامیاب نہ ہوا۔ تھوڑی دیر دماغ میں اِدھر اُدھر ہاتھ مارتا رہا۔ جب چاروں طرف سے سرزنش ہوئی تو زچ بچ ہوگیااور ایک عجیب سی خواہش اسکے دل میں پیدا ہوئی کہ جس طرح کمرے میں اندھیرا ہے اسی طرح اسکے دماغ پربھی اندھیرا چھا جائے۔

بار بار اسے یہ چیز ستا رہی تھی،’’ایسی واہیات حرکت اور مجھے خیال تک نہ آیا۔‘‘ پھر وہ سوچتا’’بات اگر ساس تک پہنچ گئی۔۔۔ سالیوں کو پتہ چل گیا۔ ۔۔میرے متعلق کیا رائے قائم کریں گے یہ لوگ کہ ایسے گرے ہوئے اخلاق کا آدمی نکلا۔۔۔ ایسی گندی ذہنیت کہ اپنی بیوی کو۔۔۔‘‘

تنگ آکر اشوک نے سگریٹ سلگایا۔ وہ ننگی تصویریں جو وہ کئی بار دیکھ چکا تھا ،اس کی آنکھوں کے سامنے ناچنے لگیں۔۔۔ ان کے عقب میں اسے اپنی بیوی کا چہرہ نظر آتا۔ حیران و پریشان، جس نے زندگی میں پہلی بار عفونت کا اتنا بڑا ڈھیر دیکھا ہو۔ سر جھٹک کر اشوک اٹھا اور کمرے میں ٹہلنے لگا۔ مگر اس سے بھی اس کا اضطراب دور نہ ہوا۔

تھوڑی دیر کے بعد وہ دبے پاؤں کمرے سے باہر نکلا۔ ساتھ والے کمرے میں جھانک کر دیکھا۔ اس کی بیوی منہ سر لپیٹ کر لیٹی ہوئی تھی۔ کافی دیر کھڑا سوچتا رہا کہ اندرجا کر مناسب و موزوں الفاظ میں اس سے معافی مانگے۔ مگر خود میں اتنی جرأت پیدا نہ کرسکا۔ دبے پاؤں لوٹا اور اندھیرے کمرے میں صوفے پرلیٹ گیا۔ دیر تک جاگتا رہا، آخر سو گیا۔صبح سویرے اٹھا۔ رات کا واقعہ اس کے ذہن میں تازہ ہوگیا۔ اشوک نے بیوی سے ملنا مناسب نہ سمجھا اور ناشتہ کیے بغیر نکل گیا۔

آفس میں اس نے دل لگا کر کوئی کام نہ کیا۔ یہ احساس اس کے دل و دماغ کے ساتھ چپک کر رہ گیا تھا، ’’ایسی واہیات حرکت اورمجھے خیال تک نہ آیا۔‘‘کئی بار اس نے گھربیوی کو ٹیلی فون کرنے کا ارادہ کیا مگر ہر بار نمبر کے آدھے ہندسے گھما کرریسیور رکھ دیا۔ دوپہر کو گھر سے جب اس کا کھانا آیا تو اس نے نوکر سے پوچھا،’’میم صاحب نے کھانا کھالیا؟‘‘ نوکر نے جواب دیا،’’جی نہیں۔۔۔ وہ کہیں باہر گئے ہیں۔‘‘

’’کہاں؟‘‘

’’معلوم نہیں صاحب!‘‘

’’کب گئے تھے؟‘‘

’’گیارہ بجے‘‘

اشوک کا دل دھڑکنے لگا۔ بھوک غائب ہوگئی۔ دو چار نوالے کھائے اور ہاتھ اٹھا لیا۔ اسکے دماغ میں ہلچل مچ گئی تھی۔ طرح طرح کے خیالات پیدا ہورہے تھے۔۔۔ گیارہ بجے۔۔۔ ابھی تک لوٹی نہیں۔۔۔ گئی کہاں ہے۔۔۔ ماں کے پاس؟ کیا وہ اسے سب کچھ بتا دیگی۔۔۔؟ ضرور بتائے گی۔ ماں سے بیٹی سب کچھ کہہ سکتی ہے۔۔۔ ہوسکتا ہے بہنوں کے پاس گئی ہو۔۔۔ سنیں گی تو کیا کہیں گی۔۔۔؟ دونوں میری کتنی عزت کرتی تھیں۔ جانے بات کہاں سے کہاں پہنچے گی۔۔۔ ایسی واہیات حرکت اور مجھے خیال تک نہ آیا۔

اشوک آفس سے با ہر نکل گیا۔ موٹر لی اور اِدھر اُدھر آوارہ چکرلگاتا رہا۔ جب کچھ سمجھ میں نہ آیا تو اس نے موٹر کا رخ گھر کی طرف پھیر دیا،’’دیکھا جائے گا جوکچھ ہوگا۔‘‘ گھر کے پاس پہنچا تو اس کا دل زور زور سے دھڑکنے لگا۔ جب لفٹ ایک دھچکے کے ساتھ اوپر اٹھی تو اس کا دل اچھل کر اس کے منہ میں آگیا۔لفٹ تیسری منزل پر رکی۔ کچھ دیر سوچ کر اس نے دروازہ کھولا۔ اپنے فلیٹ کے پاس پہنچا تو اس کے قدم رک گئے۔ اس نے سوچا کہ لوٹ جائے۔ مگر فلیٹ کا دروازہ کھلا اور اس کا نوکر بیڑی پینے کے لیے باہر نکلا۔ اشوک کو دیکھ کر اس نے بیڑی ہاتھ میں چھپائی اور سلام کیا۔ اشوک کو اندر داخل ہونا پڑا۔

نوکر پیچھے پیچھے آرہا تھا۔ اشوک نے پلٹ کر اس سے پوچھا،’’میم صاحب کہاں ہیں؟‘‘

نوکر نے جواب دیا،’’اندر کمرے میں؟‘‘

’’اور کون ہے؟‘‘

’’ان کی بہنیں صاحب۔۔۔ کولابے والے صاحب کی میم صاحب اور دو پارسی بائیاں!‘‘

یہ سن کر اشوک بڑے کمرے کی طرف بڑھا۔ دروازہ بند تھا۔ اس نے دھکا دیا۔ اندر سے اشوک کی بیوی کی پتلی مگر تیز آواز آئی’’ کون ہے؟‘‘

نوکر بولا ’’صاحب‘‘

اندر کمرے میں ایک دم گڑ بڑ شروع ہوگئی۔ چیخیں بلند ہوئیں۔ دروازوں کی چٹخیاں کھلنے کی آوازیں آئیں۔ کھٹ کھٹ پھٹ پھٹ ہوئی۔ اشوک کوری ڈور سے ہوتا پچھلے دروازے سے کمرے میں داخل ہوا تو اس نے دیکھا کہ پروجیکٹر چل رہا اور پردے پردن کی روشنی میں دھندلی دھندلی انسانی شکلیں ایک نفرت انگیز مکانکی یک آہنگی کے ساتھ حیوانی حرکات میں مشغول ہیں۔

اشوک بے تحاشا ہنسنے لگا۔


This work is now in the public domain in Pakistan because it originates from Pakistan and its term of copyright has expired. According to Pakistani copyright laws, all photographs enter the public domain fifty years after they were published, and all non-photographic works enter the public domain fifty years after the death of the creator.