عکس رخ گلگوں سے تماشا نظر آیا

عکس رخ گلگوں سے تماشا نظر آیا
by منیرؔ شکوہ آبادی
316910عکس رخ گلگوں سے تماشا نظر آیامنیرؔ شکوہ آبادی

عکس رخ گلگوں سے تماشا نظر آیا
آئینہ انہیں پھولوں کا دونا نظر آیا

خوبی میں دوبالا وہ سراپا نظر آیا
پر نور بدن پیکر جوزا نظر آیا

دل خوش گہروں کا ہمیں صحرا نظر آیا
کیا گرد یتیمی کا بگولا نظر آیا

نیرنگیٔ حیرت سے رواں رہتے ہیں آنسو
تصویر کا دریا ہمیں بہتا نظر آیا

نکلا جو ہوا وار میں وہ رشک سلیماں
اڑتا سوئے افلاک فرشتہ نظر آیا

بالیدہ ہے ہر شیشۂ مے اب کی یہاں تک
ایک ایک فلک پنبۂ بینا نظر آیا

خلعت مجھے وحشت نے دیا وسعت دل کا
جامہ میں مرے دامن صحرا نظر آیا

نظروں میں یہ چھایا ہے غبار دل وحشی
ہر آنکھ میں آنسو مجھے ڈھیلا نظر آیا

وہ آئنہ سیما ہے دل سخت عدو میں
بوتل میں اترتے ہوئے شیشہ نظر آیا

عاشق ترے پلکوں کا ہوا زندۂ جاوید
سولی کا خریدار مسیحا نظر آیا

زاہد نے بھی عقد آج کیا بنت عنب سے
جفت بط مے مرغ مصلا نظر آیا

برگشتہ نصیبی صدف دل کی کہوں کیا
موتی کے عوض اس میں پھپھولا نظر آیا

آئینۂ گیتی میں وہی عکس ہے ہر سو
ہم نے جدھر اس شوخ کو دیکھا نظر آیا

کرتے ہو مرے پیکر وہمی کو نشانہ
ناوک میں تمہارے پر عنقا نظر آیا

اس بت کے نہانے سے ہوا صاف یہ پانی
موتی بھی صدف میں تہ دریا نظر آیا

اوس حور کی رنگت اڑی رونے سے ہمارے
رنگ گل فردوس بھی کچا نظر آیا

شیشہ مئے گلگوں کا انہیں مد نظر ہے
تیغ نگہ مست میں چھالا نظر آیا

ہو جائیں گے سب کوہ جہاں سنگ فلاخن
وحشت میں جو عالم تہ و بالا نظر آیا

شمعیں جو بجھیں بزم طلسمات کو دیکھا
آنکھیں جو ہوئیں بند تو کیا کیا نظر آیا

کیوں خوش نہ ہو تل بیٹھ کے میزان فلک میں
موزون قد یار کا پلا نظر آیا

مل مل گئے ہیں خاک میں لاکھوں دل روشن
ہر ذرہ مجھے عرش کا تارا نظر آیا

آنکھوں میں کھٹکتی ہے یہی دولت دنیا
ہر سکے کی مچھلی میں بھی کانٹا نظر آیا

ہے بود جہاں نقش سر آب نظر میں
یہ کھیل ہمیں بن کے بگڑتا نظر آیا

حیرت کدۂ دہر ہوا مجھ سے مکدر
آئینۂ ایجاد میں دھبا نظر آیا

خوش آتے نہیں دانت کسی حور کے مجھ کو
چاک گل فردوس میں بخیہ نظر آیا

مدت سے نظر دوختہ رہتے ہیں گرفتار
گیسو کی بھی زنجیر میں ٹانکا نظر آیا

چمپاکلی اس مست مئے حسن کی دیکھی
گردن کی صراحی کا یہ مینا نظر آیا

مدفون ہوا زیر زمیں آپ کا لاغر
چشم لحد تنگ میں جالا نظر آیا

کلکتہ میں ہر دم ہے منیرؔ آپ کو وحشت
ہر کوٹھی میں ہر بنگلے میں جنگلا نظر آیا


This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.