عکس پر یوں آنکھ ڈالی جائے گی
عکس پر یوں آنکھ ڈالی جائے گی
سامنے کی چوٹ خالی جائے گی
یہ قیامت بھی نکالی جائے گی
اس گلی سے کھا کے گالی جائے گی
کعبے میں بوتل کھلے موقع کہاں
زمزمی سے آج ڈھالی جائے گی
گل تو کیا ہیں تا قفس اے باد تند
پتہ پتہ ڈالی ڈالی جائے گی
بزم ساقی میں اگر لغزش ہوئی
ہاتھ سے مے کی پیالی جائے گی
گدگدانے کو کف پا دل کے ساتھ
آرزوئے پائمالی جائے گی
وا در توبہ ہے تو جلدی ہے کیا
بات بگڑی کچھ بنا لی جائے گی
مردہ کوئی آرزو اس دل میں ہے
کہہ گئے وہ جان ڈالی جائے گی
میکدے ہم گھر سے جائیں گے ریاضؔ
ایک بوتل ساتھ خالی جائے گی
This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author. |