عکس ہے آئینۂ دہر میں صورت میری
عکس ہے آئینۂ دہر میں صورت میری
کچھ حقیقت نہیں اتنی ہے حقیقت میری
دیکھتا میں اسے کیوں کر کہ نقاب اٹھتے ہی
بن کے دیوار کھڑی ہو گئی حیرت میری
روز وہ خواب میں آتے ہیں گلے ملنے کو
میں جو سوتا ہوں تو جاگ اٹھتی ہے قسمت میری
سچ ہے احسان کا بھی بوجھ بہت ہوتا ہے
چار پھولوں سے دبی جاتی ہے تربت میری
آئینے سے انہیں کچھ انس نہیں بات یہ ہے
چاہتے ہیں کوئی دیکھا کرے صورت میری
میں یہ سمجھوں کوئی معشوق مرے ہاتھ آیا
میرے قابو میں جو آ جائے طبیعت میری
بوئے گیسو نے شگوفہ یہ نیا چھوڑا ہے
نکہت گل سے الجھتی ہے طبیعت میری
ان سے اظہار محبت جو کوئی کرتا ہے
دور سے اس کو دکھا دیتے ہیں تربت میری
جاتے جاتے وہ یہی کر گئے تاکید جلیلؔ
دل میں رکھیے گا حفاظت سے محبت میری
This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author. |