عکس ہے بے تابیوں کا دل کی ارمانوں میں کیوں
عکس ہے بے تابیوں کا دل کی ارمانوں میں کیوں
بے زباں شامل ہوئے جاتے ہیں مہمانوں میں کیوں
ہو گئے دیوانے رخصت بستیوں کی سمت کیا
چھا گئیں ویرانیاں سی پھر بیابانوں میں کیوں
دل کی اس بے رونقی کا ذکر جانے دیجئے
ہو رہی ہیں بستیاں تبدیل ویرانوں میں کیوں
ہے رقابت جزو لازم مہر و الفت کا اگر
اجتماعی عشق پھر ہوتا ہے پروانوں میں کیوں
کیا کسی کٹیا کے اندر جاگ اٹھی ہے زندگی
کھلبلی سی پڑ گئی محلوں میں ایوانوں میں کیوں
بیخ کن تھے جو ستم رانوں کے کل تک اے ندیم
ہو رہا ہے اب شمار ان کا ستم رانوں میں کیوں
امن کے خواہاں ہیں جب افسرؔ جہاں والے تمام
کشمکش رہتی ہے پھر اتنی جہاں بانوں میں کیوں
This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author. |