عہد میر کی زبان

عہد میر کی زبان
by وحید الدین سلیم
319495عہد میر کی زبانوحید الدین سلیم

شیکسپیئر کی نسبت انگریزی ادب کے محققین نے یہ بات معلوم کی ہے کہ اس کی زبان میں واردک شائر کا اثر ہے۔ یہ ایک ضلع کا نام ہے، جس کے ایک قصبہ میں شیکسپیئر پیدا ہوا تھا۔ اس ضلع کی خاص زبان کی فرہنگ مرتب کی گئی ہے۔ اگر آگرہ کی خاص زبان کی فرہنگ مرتب ہو جائے تو اس میں ذرا شبہ نہیں ہے کہ میر کی زبان میں اس خاص زبان کا اثر ضرور محسوس ہوگا۔ مثلاً کہسلنا جو میر کی زبان میں ہے یا اور کا لفظ جو طرف کے معنوں میں ہے، آگرہ کی زبان کا پتہ دیتا ہے۔ اور بھی بہت سے الفاظ ہوں گے جو آگرہ کی خاص زبان کی فرہنگ تیار ہونے پر معلوم ہو سکتے ہیں۔

اگرچہ ٹھیک سن معلوم نہیں ہے، جس میں میر صاحب نے آگرہ سے دہلی کا رخ کیا۔ مگر یہ بات یقینی ہے کہ وہ باپ کے مرنے کے بعد جب دہلی میں آئے تو جوان اور بالغ تھے اور شعر کہنا آگرہ میں شروع کر چکے تھے۔ اس لحاظ سے ضروری ہے کہ وہ کچھ نہ کچھ الفاظ اپنے وطن کی یادگار لائے ہوں گے مگر اس میں بھی شک نہیں کہ دلی پہنچ کر انہوں نے دلی کی زبان پر گہری توجہ مبذول کی اور اس قدر مہارت پیدا کی کہ ان میں اور اہل زبان میں کوئی فرق نہیں رہا۔

لکھنؤ میں ایک موقع پر انہوں نے لوگوں سے کہا تھا کہ خاقانی، سعدی اور حافظ کا کلام سمجھنے کے لیے فارسی زبان کی فرہنگیں درکار ہیں مگر میرا کلام کوئی شخص نہیں سمجھ سکتا، جب تک کہ وہ اس زبان سے واقف نہ ہو جو دلی کی جامع مسجد کی سیڑھیوں پر سنی جاتی ہے۔ فی الحقیقت میر صاحب نے محاورہ کے سامنے اس کی مطلق پروا نہیں کی کہ جن زبانوں سے الفاظ اردو زبان میں آئے ان میں اصلی شکل ایسے الفاظ کی کیا تھی۔ مثلاً وہ مسجد کو مسیت، پلید کو پلیت، دستخط کو دسخط، شتاب کو شتابی، اضطراب کو اضطرابی، قرآن کو قران، امیری کو امرائی، خیال کو خال (بروزن حال) نزدیک کو نزیک باندھ گئے ہیں۔

شاعری کے پہلے اور دوسرے دور میں ہندی الفاظ کثرت سے مستعمل تھے۔ تیسرے دور میں ان کی جگہ فارسی، عربی الفاظ رواج پا گئے تھے۔ لیکن اس دور میں بہت سے ہندی الفاظ رائج تھے جو چوتھے دور میں متروک ہوئے اور رفتہ رفتہ زبان فارسی عربی آمیز ہوتی چلی گئی۔ مثلاً تیسرے دور میں شام کی جگہ سانجھ، محبوب کی جگہ سجن، شہر کی جگہ نگر، جدائی کی جگہ برہ، ذرا کی جگہ تنگ، چہرہ کی جگہ مکھ، خوشبو کی جگہ باس، قول کی جگہ بچن، دنیا کی جگہ جگ، ہوا کی جگہ پاؤ، پوں وغیرہ الفاظ مستعمل تھے۔ اس دور میں بہت سے الفاظ زبانوں پر جاری تھے، جن کی شکل چوتھے دور میں بدل گئی۔ مثلاً اس زمانے میں مٹی کی جگہ ماٹی، لگا کی جگہ لاگا، پھٹنا کی پھاٹنا، کیچڑ کی جگہ کیچ، جگہ کی جگہ جاگھ، لہو کی لوہو، گھسنیا (بالکسر) کی جگہ گھسنا (بالفتح) ڈبویا کی جگہ ڈبایا وغیرہ الفاظ بولتے تھے۔

ولی کے زمانے سے میر کے زمانے تک بلکہ آگے چل کر غالب کے زمانہ تک بھی شعرا برابر اس بات کی کوشش کرتے رہے ہیں کہ فارسی زبان کی ترکیبوں اور محاوروں کا ترجمہ اپنی زبان میں کریں اور اس طرح اردو میں نئی ترکیبوں اور نئے محاوروں کا اضافہ کیا جائے۔ ذیل میں اس کی مثالیں درج کی جاتی ہیں،

ترآمدن۔۔۔ ترآنا (شرمندہ ہونا)
توگوئی۔۔۔ کہے تو (گویا)
نمود کردن۔۔۔ نمود کرنا (ظاہر ہونا)
حیف آنان۔۔۔ حیف وے (افسوس ان پر)
خوش آمدن۔۔۔ خوش آنا (اچھا معلوم ہونا)
ایکہ۔ اے آنکہ۔۔۔ اے تو کہ۔ اے وہ کہ
دست درکار داشتن۔۔۔ کسی کام میں دست ہونا (مہارت ہونا)
تو دہن ایں کارنداری۔۔۔ تو اس کا م کا دہن نہیں رکھتا (یعنی لیاقت یا حوصلہ نہیں رکھتا)
گوش کردن۔۔۔ گوش کرنا (سننا)
بوکردن۔۔۔ بوکرنا۔ باس کرنا (سونگھنا)
خوابم بردیار بود۔۔۔ مجھے خواب لے گیا (مجھے نیند آ گئی)
زنجیر کردن۔۔۔ زنجیر کرنا (قید کرنا)
خاک برسرکردن۔۔۔ سر پر خاک کرنا (یعنی ڈالنا)
از عہدہ چیزے بدرآمدن۔۔۔ کسی کام کے عہدہ سے برآنا (اس کام کو پورا کرنا)
یا خاک برابر شدن۔۔۔ خاک سے برابر ہونا (خاک میں مل جانا)
سربدیوار آمدن۔۔۔ دیوار سر پر آنا (یعنی ٹکرانا)
نماز کردن۔۔۔ نماز کرنا (یعنی پڑھنا)
خوشا حال کسانیکہ۔۔۔ احوال خوش انہوں کا (ان کا حال کیا ہی اچھا ہے)
ہمہ روے زمیں گرفت۔۔۔ تمام روئے زمین لیا (ساری زمیں پر چھا گیا)
دردسردادن۔۔۔ دردسردینا (تکلیف دینا)
سرفرو آوردن۔۔۔ سرفرولانا (سر جھکانا)
سرفروآمدن۔۔۔ سرفرو آنا (سر جھکنا)
رنجہ کردن۔۔۔ رنجہ کردن (تکلیف پہنچانا)
قدم رنجہ کردن۔۔۔ قدم رنجہ کرنا (آنا)
تاب دادن۔۔۔ تاب دینا (بل دینا)
سرکشیدن۔۔۔ سرکھینچنا (غرور کرنا۔ نمودار ہونا)
داغ کردن۔۔۔ داغ کرنا (رشک سے بلانا)
داغ شدن۔۔۔ داغ ہونا (رشک سے بلانا)
بیک نگاہ وہم فانمی کند۔۔۔ ایک نگاہ کو بھی دفا نہیں کرتا (ایک نظر کے لیے بھی کافی نہیں)
واشدن۔۔۔ واہنا (کھلنا مثلاً آنکھ کا) نیز (بےتکلف ہونا)
تسلی باش۔۔۔ تسلی رہ (تسلی سے رہ)
ہم رسیدن۔۔۔ ہم پہنچنا (حاصل ہونا)
جگر کردن۔۔۔ جگر کرنا (دلیری ظاہر کرنا)
سرکردن۔۔۔ سرکرنا (شروع کرنا)
طرح کردن۔۔۔ طرح کرنا (بنیاد ڈالنا)
طرف شدن۔۔۔ طرف ہونا (مقابل ہونا) ہمسری کادعویٰ کرنا
خوشاوقت آنکہ۔۔۔ وقت خوش ان کا (ان کا کیا ہی اچھا حال ہے)
سرزدشدن۔۔۔ سرزد ہونا (باہر نکلنا مثلاً سبزہ کا)
تماشاکردن۔۔۔ تماشا کرنا (دیکھنا)
سازکردن۔۔۔ ساز کرنا (سامان کرنا)
تعب کشیدن۔۔۔ تعب کھینچنا (تکلیف اٹھانا)
راہ غلط کردن۔۔۔ راہ غلط کرنا (رستہ بھول جانا)
سفیدی کردن۔۔۔ سفیدی کرنا (بوڑھا ہوجانا)
بوازدہن می آید بوے شیراز دہن می آید۔۔۔ بو آتی ہے وہاں سے (تم ابھی بچے ہو)
خوکردن۔۔۔ خوکرنا (عادی ہونا)
زبان کردن۔۔۔ زبان کرنا (زبان درازی کرنا)
نیازکردن۔۔۔ نیاز کرنا (کسی کی طرف سر جھکانا)
گردآمدن۔۔۔ گردآنا (جمع ہونا)
تکلیف کردن۔۔۔ تکلیف کرنا (مجبور کرنا)
بروئے کار آوردن۔۔۔ بروئےکار لانا (ظاہر کرنا)
فروشدن۔۔۔ فروہونا (دور ہونا مثلاً غم کا)
چشم دوختن۔۔۔ چشم سینا (طمع کرنا)
زبان تہ زبان داشتن۔۔۔ زبان تہ زبان رکھنا (منافقانہ باتیں کرنا)
گردن ازموباریک داشتن۔۔۔ گردنمو سے باریک تر کرنا (مطیع ہونا)

فارسی ترکیبوں اور محاوروں کے ترجموں کے علاوہ اس زمانے کے شعرا نے خالص فارسی مرکب الفاظ بھی جابجا اپنے کلام میں استعمال کیے ہیں۔ یہاں ایسے چند مرکب الفاظ کی مثالیں درج کی جاتی ہیں جن کو خود میر نے اپنے کلام میں استعمال کیا ہے۔

تہ بال۔ کنج کاوی۔ سبحہ گرداں۔ پایاں کار۔ ستم کشتہ۔ غبار ناتواں۔ پروانہ ساں۔ موج خیز دہر۔ سخن مشتاق۔ عاجز سخن۔ قادر سخن۔ حرف ناشنو۔ ناقباحت فہم۔ غنچہ پیشانی۔ شوق کشتہ۔ حلقہ درگوش۔ ہنگامہ گرم کن۔ نمونہ یوم الحساب۔ حرف زیرلبی۔ دل غفراں پناہ۔ آفت دل عاشقاں۔ عہد فراموش کن۔ رقبہ بسیار گو۔ خاک افتادہ ویرانہ۔ سرنشین رہ میخانہ۔ غبار دیدہ پروانہ۔ ذوق پیکاں دبیز صفحہ تصویر بے ہوشاں۔ درائے قافلہ ساں۔ شائستہ پریدن سربجیب تفکر۔ غرق بحر تحیر۔ صحرا صحرا وحشت۔ دنیا دنیا تہمت۔ جہاں درجہاں غفلت۔ یک بیاباں بیکسی و تنہائی عالم عالم جنوں۔ دست زیر زنخ ستون۔ برق خرمن صد کوہ طور جوش اشک ندامت۔ پیشکش سادہ خود کام۔ صدسخن آغشتہ بخون زیر زباں پاس جوش دل و دل گرمی ایام وغیرہ وغیرہ۔ بعض پورے مصرعے فارسی ہیں۔ مثلاً قابل آغوش ستم دیدگان قدرہفت آسماں ظلم شعار۔ دل خوپذیر وصال دوام وغیرہ۔

رفتہ رفتہ یہ لے بڑھتی گئی۔ غالب کی ابتدائی شاعر میں اکثر اشعار ایسے ہیں کہ ان میں ایک آدھ لفظ مثلاً کایا سے یا ہے اردو ہے۔ باقی سب فارسی اور بعض اشعار میں تو ایک لفظ بھی اردو کا نہیں۔ خود میر صاحب نے اپنے تذکرہ نکات الشعرا میں لکھا ہے کہ’’ ریختہ کی چند قسمیں ہیں۔ اول یہ کہ ایک مصرع فارسی ہوا ور ایک ہندی۔ دوم یہ کہ آدھا مصرع فارسی اور آدھا ہندی۔ سوم یہ کہ صرف اور فعل بھی فارسی زبان کے لائے جائیں اور یہ نہایت قبیح ہے۔ چہارم یہ کہ فارسی ترکیبیں شعر میں لائی جائیں مگر وہ ترکیبیں ایسی ہونی چاہئیں جو زبان ریختہ سے مناسبت رکھتی ہوں۔ اس بات کو شاعر کے سوا کوئی نہیں پہچان سکتا کہ ترکیب غیرناموس اور نامناسب بندش کا لانا سراسر عیب ہے اور اس کا جاننا سلیقہ شاعری پر موقوف ہے۔ میں نے اپنی شاعری میں اسی بات کو پسند کیا ہے۔ ‘‘ مگر فارسی کی وہ ترکیبیں جو میر صاحب نے استعمال کی ہیں اور جن کا ذکر ابھی ہوا ہے، ان میں سے بعض ترکیبیں یقیناً ایسی ہیں کہ اردو زبان ان کاتحمل نہیں کر سکتی، لیکن میر صاحب پر کون حرف رکھ سکتا ہے؟

جو زبان میر کے زمانے میں جاری تھی، اگر ہم اس کی گریمر پر غور کریں تو سب سے پہلے ہماری نظر الفاظ کی تذکیر و تانیث پر پڑتی ہے۔ بہت سے الفاظ ہیں جن کی تذکیر و تانیث اس زمانے کی تذکیر و تانیث سے مختلف تھی۔ مثلاً اس زمانے میں ذیل کے الفاظ مذکر بولے جاتے تھے۔ میر۔ وید۔ جراحت۔ جان۔ سطح۔ گشت۔ گلگشت۔ خلش۔ سوت (سرچشمہ) الفاظ ذیل کو مونث بولتے تھے۔ تغلب۔ خواب۔ گلزار۔ مزار۔ نشتر۔ حشر وغیرہ۔ ندا کی حالت میں اور حروف مغیرہ کے ساتھ الفاظ کی فارسی جمع لاتے تھے اور اس میں کوئی تغیر نہیں کیا جاتا۔ مثلاً اے بتاں یعنی اے بتو! اے ہم صفیراں بتاں کا عشق۔ آوارگاں کو۔ بلبلاں نے موزوں طبعاں سے۔

عربی فارسی اسما کے آخر میں یے لگاکر اس زمانے میں صفت بنا لیتے تھے۔ مثلاً حیرتی۔ سفری۔ تلاشی (جس کو آج کل متلاشی بولتے ہیں) وداعی وغیرہ صفت میں زیادتی کا اظہار منظور ہوتا تو بہت کی جگہ زور کا لفظ لگا دیتے تھے مثلاً کم گھیر۔ شیریں بچن وغیرہ۔ آج کل صفت عددی کے جو الفاظ غیر معین تعداد ظاہر کرنے کے لیے مستعمل ہیں، ان میں سے ایک بعض کا لفظ ہے جس کی جمع بعضوں کی جگہ آیکوں کا لفظ بھی بولتے تھے۔ مثلاً ایکوں نے صبر کیا۔ ایکوں نے آہ وزاری کی۔ وہ اور یہ صفات ضمیری ہیں۔ ان کی جگہ اس زمانے میں کبھی وہ (بالفتح) اور یہ (بالفتح) کے الفاظ مستعمل ہوتے تھے۔ ضمیر شخصی واحد غائب حالت فاعلی میں کبھی وہ (بالضم) لائی جاتی تھی، کبھی وہ (بالفتح) اور کبھی وہ (بواؤ معروف بروزن یو) اگر اس کے ساتھ لانے کی ضرورت ہوتی تو اس نے کی جگہ ان تے کہتے تھے۔ ضمیر شخصی جمع غائب فاعلی حالت میں لائی جاتی تو وے کہتے تھے۔ اضافی حالت میں انہوں کا اسی طرح، جس نے کی جگہ جن نے اور کس نے کی جگہ کن نے بولتے تھے۔ جمع کی حالت میں جنہوں نے جنہوں کا، کنہوں نے کنہوں کا۔ نے اور کا کے علاوہ دیگر حروف ربط کے ساتھ بھی ان لفظوں کی یہی حالت ہوتی تھی۔ مثلاً انہوں نے جنہوں کی۔ کنہوں تک۔

ضمیر واحد مخاطب اور ضمیر واحد متکلم جب حالت اضافی میں لائی جاتی تو میرا اور تیرا کی جگہ مجھ اور تجھ کے الفاظ لائے جاتے تھے۔ مثلاً مجھ عشق یعنی میرا عشق۔ تجھ صفت یعنی تیری صفت۔ ضمیر جمع مخاطب اور ضمیر جمع متکلم حالت اضافی میں لائی جاتی اور مضاف الیہ جمع مونت ہوتا تو کہتے تھے باتیں ہماریاں۔ راتیں تمہاریاں۔ ضمیر تنکیر کوئی کے ساتھ جب کوئی حرف ربط آئے تو اس کی تبدیل میں آج کل کسی کے ساتھ ہوتی ہے مگر اس زمانے میں یہ بات ضروری نہ تھی۔ مثلاً ’’جوں بھیگتی میں ہوں کوئی سرد نوجوان کی۔‘‘ ضمیر موصول جن کے مقابلہ میں (جو جس کی جگہ لائی جاتی تھی) تن کا لفظ استعمال کیا جاتا تھا۔ جس کے معنی ہیں وہ۔

فعل متعدی کے ساتھ اس زمانے میں نے کالانا ضروری نہ تھا۔ مثلاً کہتے تھے :ہم شہر دیکھا۔ میں کام کیا۔ تم زید کو اداس کیا۔ میں اس ملک کی آب وہوا تجربہ کی ہے۔ وغیرہ لانا بھی فعل متعدی ہے مگر آج کل نے سے مستثنیٰ ہے۔ اس زمانے میں تاباں نے لکھا: ’’ہجر نے قیامت لائی۔‘‘ یہی استعمال آج کل دکن میں ہے۔

فعل کے صیغہ جمع مونث غائب و متکلم میں آج کل لاحقہ ین لگایا جاتا ہے۔ مگر اس زمانے میں لاحقہ اں لگایا جاتا تھا۔ مثلاً آئیں اور لائیں کی جگہ آئیاں اور لائیاں۔ یعنی وہ عورتیں آئیاں یا لائیاں۔ تم عورتیں آئیاں یا لائیاں۔ ہم عورتیں آئیاں لائیاں۔ اسی طرح پھولوں کی چھڑیاں ہلیاں۔ زلفیں دکھلائیاں۔ باتیں نہ مائیاں۔ یہ سب ماضی مطلق کی مثالیں ہیں۔ ماضی قریب میں کہتے تھے۔ آنکھیں ترسیاں ہیں چنگاریاں برسایاں ہیں آسماں نے۔ کیا کیا شکلیں خاک میں ملائیاں ہیں۔ ماضی بعید میں کہتے تھے چہرہ پرچھائیاں آئیاں تھیں۔ باتیں بہت بنائیاں تھیں۔ ماضی ناتمام میں کہتے تھے، وہ آنکھیں مارئیاں تھیں۔ تم ہم سے ڈرتیاں تھیں۔ ماضی احتمالی میں کہتے تھے، وہ آئیاں ہوں گی مٹھائیاں کھلائیاں ہوں گی۔ ماضی تمنائی میں کہتے تھے۔ کاش وہ لڑئیاں۔ کاش ان کی نگاہیں ہمارے دلوں میں گڑتیاں۔ فعل حال میں کہتے تھے۔ ہم مکان سجائیاں ہیں، تم کاہیکو لڑتیاں جھگڑتیاں ہو؟

ماضی ناتمام کی پوری گردان اس زمانے میں حسب ذیل تھی:وہ ڈرے تھا۔ وہ ڈریں تھے۔ تو ڈرے تھا۔ تم ڈرو تھے۔ میں ڈروں تھا۔ ہم ڈریں تھے (مؤنث کے صیغے) وہ ڈرے تھے۔ وہ ڈریں تھیں۔ تو ڈرے تھی۔ تم ڈرو تھیں۔ میں ڈروں تھی۔ ہم ڈریں تھیں۔

فعل حال کی گردان حسب ذیل طریقے سے کرتے تھے :وہ چلے ہے۔ وہ چلیں ہیں۔ تو چلے ہے۔ تم چلو ہو۔ میں چلوں ہوں۔ ہم چلیں ہیں۔ یہ چھ صیغے مذکر کے ہیں۔ مؤنث کے چھ صیغے بھی اسی شکل کے تھے۔ ماضی ناتمام اور فعل حال کے ساتھ اگر کوئی فعل امدادی لایا جاتا تھا تو اس کی صورت حسب ذیل ہوتی تھی (مذکر صیغے) وہ چلا جاوے تھا۔ وہ چلے جاویں تھے (مؤنث کے صیغے) وہ چلی جاوے تھی۔ وہ چلی جاویں تھیں۔ تو چلی جاوے تھی۔ تم چلی جاؤ تھی۔ میں چلی جاؤں تھی۔ ہم چلی جاویں تھیں۔

یہ مثال ماضی ناتمام کی ہے۔ فعل حال کی مثال حسب ذیل ہے :تو دکھائی دے ہے۔ تم دکھائی دو ہو۔ میں دکھائی دوں ہوں۔ ہم دکھائی دے ہیں۔ فعل امدادی لگانے کے بعد بھی فعل حال میں مذکر اور مؤنث کے صیغے یکساں رہیں گے۔ ان دونوں گردانوں کو دیکھ کر صاف معلوم ہوتا ہے کہ اصلی فعل اپنی شکل پر بدستور رہتا ہے مگر فعل امدادی میں تغیر ہوتا رہتا ہے۔

فعل کے صیغہ جمع مؤنث غائب و مخاطب و متکلم کے آخر میں جب بجائے لاحقہ ین کے لاحقہ ان لگایا جاتا ہے، تو ان صیغوں کے ساتھ فعل امدادی لانے سے صرف یہ تغیر ہوگا کہ اصلی فعل بدستور قائم رہےگا اور لاحقہ ان فعل امدادی کے ساتھ لایا جائےگا۔ مثلاً ماضی مطلق میں تمام باتیں سمجھادیاں۔ ہم مست ہو پڑیاں۔ ماضی قریب میں وہ نکاح کر بیٹھیاں ہیں۔ ماضی بعید میں یہ کتابیں ان کو دکھائیاں تھیں۔ ماضی احتمالی میں ساری نعمتیں چکھ لیا ہوں گی۔ ماضی تمنا میں، کاش وہ فوجیں بکھر جاتیاں۔ فعل حال میں ہم ہری ہری ٹہنیاں کاٹ ڈالتیاں ہیں۔

فعل کی مذکورہ بالا شکلوں کے علاوہ بعض اور شکلیں بھی ہیں جو اس زمانے میں رائج تھیں۔ مثلاً ٹوٹ گیا کی جگہ ٹوٹا گیا، چھوٹ گیا کی جگہ چھوٹا گیا، پھوٹ گیا کی جگہ پھوٹا گیا، مرجھا گیا کی جگہ مرجھایا گیا۔ دیکھتا رہتا ہوں کی جگہ دیکھ رہتا ہوں، آتے ہیں کی جگہ آتے ہینگے اور پوچھا کی جگہ پوچھنا کیا وغیرہ۔

جن مصدروں میں علامت مصدر سے پہلے کوئی حرف علت ہے، ان کے مضارع، مستقبل، حال اور ماضی ناتمام میں فعل کے لاحقہ سے پہلے ایک واؤ بڑھایا دیا جاتا تھا۔ مثلاً بودے، کھا دےگا۔ لیوے ہے، دیوے تھا۔ اگر ماضی مطلق یا ماضی تمنائی کے صیغہ جمع غائب کے آگے اس زمانے میں کوئی حرف ربط نے اور میں کے علاوہ لایا جاتا تھا تو اس صیغہ سے مصدری معنی مراد لیتے تھے۔ مثلاً مرگئے پر یعنی مرجانے پر سر جھکے کا فائدہ کیا۔ یعنی سر جھکنے کا۔ رکے رہتے، جنون ہوتا ہے یعنی رکے رہنے سے۔ کبھی حرف ربط حذف بھی کر دیا جاتا تھا۔ مثلاً آدم کی قدر جدا ہوئے ظاہر ہوتی ہے۔

ماضی معطوفہ کی شکلیں اس زمانے میں چار تھیں، یعنی امر کے آخر میں کریا، کے یا کرکے باتے بڑھاتے تھے۔ مثلاً مرکز، ڈبوکے، مر کرکے۔ دیکھے۔ جیسے میر کا شعر ہے،

کسوکے بال درہم دیکھتے میر
ہوا ہے کام دل برہم ہمارا

اگر امرالف پر ختم ہوتا تھا تو اے کر کا اضافہ کرتے تھے۔ مثلاً ڈھائے کر۔ کھائے کر۔ گائے کر۔ بجائے کر۔

تمیز فعل، جو وقت کے اظہار کے لیے آتی ہے، اس میں الفاظ جب۔ تب۔ آگے۔ ہمیشہ۔ بعدازاں کی جگہ الفاظ جد، ند، کد، آگونداں۔ جب نہ تب۔ نت اور بعد ازلائے جاتے تھے۔ اظہار سمت کے لیے اِدھر اُدھر جدھر کدھر کی جگہ ایدھر۔ اودھر۔ جیدھر۔ کیدھر لاتے تھے۔ اور طرف کا مترادف ہے۔ مثلاً دل کے اور یعنی دل کی طرف۔ اسی طرح ذرا کی جگہ ٹک، تنگ، بالکل کی جگہ نپٹ، نزدیک کی جگہ نزیک پاس کی جگہ کنے، پر کی جگہ اوپر لایا جاتا تھا۔ تمیزوں میں سے الفاظ آگے، پاس، کنے، اوپر، بیچ، ساتھ کے استعمال میں اکثر ان سے پہلے حرف اضافت نہیں لاتے تھے۔ مثلاً پالکی آگے۔ مجھ پاس۔ ہم پاس۔ سب پاس۔ غیر پاس۔ کسی کنے۔ جنہوں کنے۔ ان کے کنے۔ بلبل کنے۔ دوش اوپر۔ پالکی اوپر۔ ماحضر اوپر۔ تس اوپر۔ طویلے بیچ۔ سرا بیچ۔ دل ساتھ۔

حرف ربط میں سے نے کو بعض اوقات نین لکھتے تھے۔ کو واؤ معروف کے ساتھ بو کے وزن پر۔ اور بعض دفعہ کوں، جوں کے وزن پر بولا جاتا تھا۔ سے کی شکل ایک زمانہ میں سوں تھی مگر میر کے زمانے میں سین اور سیین بھی لاتے تھے۔ تک کی جگہ تلک یا الگ استعمال ہوتا تھا۔ تئیں آج کل فقط اپنے کے ساتھ آتا ہے مگر اس زمانے میں یہ لفظ بہت مستعمل تھا۔ کبھی اس کو صرف اضافت کے ساتھ اور کبھی بغیر اضافت کے استعمال کرتے تھے۔ یہ لفظ کبھی تک کے معنوں میں آتا تھا اور کبھی کوکے معنوں میں۔ مثلاً یا تئیں، کب تئیں، محشرتئیں (تک کے معنوں میں) اور دل کے تئیں، آقا کے تئیں، اپنے تئیں، میرے تئیں، رات کے تئیں (کوکے معنوں میں) پر کی جگہ اوپر لاتے تھے۔ جیسے ہونٹوں کے اوپر یعنی ہونٹوں پر۔ میں کی جگہ بیچ آتا تھا جیسے چمن کے بیچ میں یعنی چمن میں۔ سو ابھی ربط کے لیے آتا تھا۔ پہلے زمانے میں اس سے پہلے حرف ربط لانا ضروری نہ تھا۔ جیسے دل سوا یعنی دل کے سوا، سواکی جگہ اس زمانے میں دوسرا لفظ چھٹ آتا تھا۔ جیسے ان گلوں چھٹ یعنی ان گلوں کے سوا۔ چھٹ سے پہلے حرف اضافت کبھی نہیں لاتے تھے۔ تک، کو، اور، میں اسیے حرف ربط ہیں کہ وہ اکثر موقعوں پر حذف کر دیے جاتے تھے۔ جیسے ہم وہاں دیر رویا کیے یعنی دیر تک۔ دل کا حال مدت کہا یعنی مدت تک۔ میر تیرے کوچے سے آنے کہے ہے۔ یعنی آنے کو اپنے اعتقاد یعنی ہمارے اعتقاد یا خیال میں۔

میر کی زبان میں ایک خاص ترکیب ہے جو فارسی ترکیب کی نقل ہے اور جس میں مضاف مضاف الیہ کے درمیان سے حرف اضافت حذف کر دیا جاتا ہے۔ مثلاً ہمیں سیر بہار خواہش ہے یعنی سیر بہار کی خواہش ہے۔ آج کل مروت قحط ہے۔ یعنی مروت کا قحط۔ یہاں ایک تبسم فرصت ہے جہاں ایک تبسم کی فرصت اے ناصح۔ تفحص فائدہ یعنی تفحص یا جستجو کا کیا فائدہ؟ میں اس ملک کی آب و ہوا تجربہ کر چکا ہوں یعنی اس ملک کی آب و ہوا کا تجربہ۔ تیرا قصہ اگر ترک پارسائی ہو یعنی تیرا ارادہ اگر ترک پارسائی کا ہو۔ انہیں بندگی خواہش ہے یعنی انہیں بندگی کی خواہش ہے۔ میں سب جہاں سیر کر چکا ہوں یعنی سب جہان کی۔

واؤ عطف کا استعمال اس زمانے میں شعرا عجیب طرح کرتے تھے۔ آج کل شاعر اس کو جائز نہیں سمجھےگا۔ اول۔ دو ایسے جملوں کے درمیان جن میں سندی الفاظ شامل ہیں مثلاً تاکے بدشت گردی و کب تک یہ خستگی۔ دوم ایک فارسی لفظ اور ایک ہندی لفظ کے درمیان مثلاً تھپڑا ووہاں۔ سوم۔ دوہندی لفظوں کے درمیان جیسے تو برہ دتھان چوری و پنکھا۔

حرف علت سومکرر جو جو کے مقابلہ میں لایا جاتا تھا۔ مثلاً جو جو ظلم تم نے کیے سو سو ہم نے اٹھائے۔ ہم اس اور وہاں کے ساتھ حرف تخصیص ہی ملایا جاتا ہے تو ہمیں اسی اور وہیں کے الفاظ تیار ہوتے ہیں۔ مگر اس زمانے میں ہم ہی، اس ہی، وہاں ہی اور ووہیں استعمال کرتے تھے۔

جوں اور جیسا حرف تشبیہ ہیں۔ ان لفظوں کے استعمال کی مثالیں حسب ذیل ہیں :جوں موج یعنی مانند موج، جیسے پکا پھوڑا پکے پھوڑے کے مانند۔ جوں کے معنی جس طرح بھی لیے جاتے تھے جیسے ع دل جانے ہے جوں روکر شبنم نے کہا گل سے یعنی جس طرح روکر۔ نمط، برنگ، بساں کے الفاظ بھی اسی غرض سے استعمال ہوتے تھے۔ مثلاً صبح نمط یعنی مانند صبح۔ خامہ کے نمط یعنی قلم کی طرح۔ اس نمط یعنی اس طرح، بہر نمط یعنی ہر طرح سے، برنگ گل یعنی مانند گل۔ بسان ماہتاب یعنی چاند کے مانند۔

میر کی زبان میں فارسی کا تا جس کے معنی ہیں جب تک جملے کے اوپر لایا جاتا ہے مثلاً تاخرقہ کو نہ پھونکے یعنی جب تک خرقہ کو نہ پھونکے۔ بھلہ رے اس زمانے میں تعجب کا حرف تھا جیسے اللہ رے۔ اس زمانے کی زبان کی ایک خصوصیت یہ بھی تھی کہ ترکیب اضافی میں اگر ایک لفظ ہندی کا ہوتا تھا تو فارسی اضافت لانے میں مضائقہ نہیں کرتے تھے۔ مثلاً مانند آرسی پوشش چھینٹ۔ صاحب ارتھی۔ بیڑہ پان۔ اگر دولفظوں کے درمیان حرف عطف اور ہوتا تو مرکب عطفی پر بھی فارسی اضافت لے آتے تھے۔ مثلاً جائے بود اور باش۔ بعض دفعہ مرکب عطفی کے درمیان حرف عطف نہیں لاتے تھے۔ اگر اس مرکب کے دونوں الفاظ کسی موصوف کی صفت ہوں تو ایک صفت کو موصوف سے ملا دیتے تھے اور دوسری صفت کو آزاد رکھتے تھے۔ مثلاً دل مرحوم کا مغفور کا ذکر۔ جب کسی جملے میں موصوف جمع مؤنث مبتدا ہوتا تھا تو خبر میں جمع مؤنث صفت لائی جاتی تھی۔ مثلاً یہ باتیں نہیں بھلیاں تمہاری ادائیں پیاری ہیں۔ راتیں اندھیاریاں ہیں۔ منزلیں کڑیاں ہیں۔ نیندیں ہماریاں ہیں۔


This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.