عیاں ہے بے رخی چتون سے اور غصہ نگاہوں سے
عیاں ہے بے رخی چتون سے اور غصہ نگاہوں سے
پیام خامشی اور وہ بھی دو دو نشر گاہوں سے
وبال جاں ہے ایسی زندگی جس میں تلاطم ہو
مٹا لوں حوصلے پھر توبہ کر لوں گا گناہوں سے
فضا محدود کب ہے اے دل وحشی فلک کیسا
نلاہٹ ہے نظر کی دیکھتے ہیں جو نگاہوں سے
حقیقت میں نگاہوں سے کوئی منزل نہیں بچتی
گزرتے دیکھے ہیں گوشہ نشیں تک شاہراہوں سے
تہی دستان قسمت کو نہ لینا تھا نہ دینا تھا
حساب زندگی کیا ہے یہ پوچھو بادشاہوں سے
ہمیں تو جلتے دل کی روشنی میں آگے بڑھنا ہے
ہٹا دو قمقمے بجلی کے نا ہموار راہوں سے
مرے نالوں کے سب شاکی کوئی ان کو نہیں کہتا
کھرچتے رہتے ہیں جو زخم دل خونی نگاہوں سے
پلا دو زہر غم دل کو نہ چھوڑے گر ہوس کاری
گنہ وہ ایک اچھا جو بچا لے سو گناہوں سے
ہمیں کچھ آرزوؔ پھیر ان کی باتوں کا سمجھتے ہیں
جو حق پوشی میں سچ کو جھوٹ کرتے ہیں گواہوں سے
This work is now in the public domain in Pakistan because it originates from Pakistan and its term of copyright has expired. According to Pakistani copyright laws, all photographs enter the public domain fifty years after they were published, and all non-photographic works enter the public domain fifty years after the death of the creator. |