عید
by نظیر اکبر آبادی

یوں لب سے اپنے نکلے ہے اب بار بار آہ
کرتا ہے جس طرح کہ دل بے قرار آہ
ہم عید کے بھی دن رہے امیدوار آہ
ہو جی میں اپنے عید کی فرحت سے شاد کام
خوباں سے اپنے اپنے لیے سب نے دل کے کام
دل کھول کھول سب ملے آپس میں خاص و عام
آغوش خلق گل بدنوں سے بھرے تمام
خالی رہا پر ایک ہمارا کنار آہ
کیا پوچھتے ہو شوخ سے ملنے کی اب خبر
کتنا ہی جستجو میں پھرے ہم ادھر ادھر
لیکن ملا نہ ہم سے وہ عیار فتنہ گر
ملنا تو اک طرف ہے عزیزو کہ بھر نظر
پوشاک کی بھی ہم نے نہ دیکھی بہار آہ
رکھتے تھے ہم امید یہ دل میں کہ عید کو
کیا کیا گلے لگاویں گے دل بر کو شاد ہو
سو تو وہ آج بھی نہ ملا شوخ حیلہ جو
تھی آس عید کی سو گئی وہ بھی دوستو
اب دیکھیں کیا کرے دل امیدوار آہ
اس سنگ دل کی ہم نے غرض جب سے چاہ کی
دیکھا نہ اپنے دل کو کبھی ایک دم خوشی
کچھ اب ہی اس کی جورو و تعدی نہیں نئی
ہر عید میں ہمیں تو سدا یاس ہی رہی
کافر کبھی نہ ہم سے ہوا ہمکنار آہ
اقرار ہم سے تھا کئی دن آگے عید سے
یعنی کہ عید گاہ کو جاویں گے تم کو لے
آخر کو ہم کو چھوڑ گئے ساتھ اور کے
ہم ہاتھ ملتے رہ گئے اور راہ دیکھتے
کیا کیا غرض سہا ستم انتظار آہ
کیوں کر لگیں نہ دل میں مرے حسرتوں کے تیر
دن عید کے بھی مجھ سے ہوا وہ کنارہ گیر
اس درد کو وہ سمجھے جو ہو عشق کا اسیر
جس عید میں کہ یار سے ملنا نہ ہو نظیرؔ
اس کے اپر تو حیف ہے اور صد ہزار آہ

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse