عیش کر خوباں میں اے دل شادمانی پھر کہاں

عیش کر خوباں میں اے دل شادمانی پھر کہاں
by نظیر اکبر آبادی

عیش کر خوباں میں اے دل شادمانی پھر کہاں
شادمانی گر ہوئی تو زندگانی پھر کہاں

جس قدر پینا ہو پی لے پانی ان کے ہاتھ سے
آب جنت تو بہت ہوگا یہ پانی پھر کہاں

لذتیں جنت کے میوے کی بہت ہوں گی وہاں
پھر یہ میٹھی گالیاں خوباں کی کھانی پھر کہاں

واں تو ہاں حوروں کے گہنے کے بہت ہوں گے نشاں
ان پری زادوں کے چھلوں کی نشانی پھر کہاں

الفت و مہر و محبت سب ہیں جیتے جی کے ساتھ
مہرباں ہی اٹھ گئے یہ مہربانی پھر کہاں

واعظ و ناصح بکیں تو ان کے کہنے کو نہ مان
دم غنیمت ہے میاں یہ نوجوانی پھر کہاں

جا پڑے چپ ہو کے جب شہر خموشاں میں نظیرؔ
یہ غزل یہ ریختہ یہ شعر خوانی پھر کہاں

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse